'ہارس ٹریڈنگ' کا خوف یا مفاہمت، پنجاب سے سینیٹرز بلامقابلہ کیسے منتخب ہوئے؟

تجزیہ کار پرویز الہٰی کو اس اتفاق رائے کا کریڈٹ دے رہے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سینیٹ کی تمام 11 خالی نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ ہو گئے ہیں جس کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے اس کا کریڈٹ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کو دیا جا رہا ہے جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ بغاوت سے بچنے کے لیے سیاسی جماعتوں نے اس معاملے میں مفاہمت کی۔

الیکشن کمیشن پنجاب کے مطابق پنجاب میں سینیٹ کے تمام امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے ہیں جن میں ٹیکنو کریٹس اور جنرل نشستوں پر پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال اِن کی کامیابی کا کوئی نوٹی فکیشن تو جاری نہیں کیا گیا، البتہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ٹیکنو کریٹ کی نشستوں پر کامیاب ہونے والوں میں اعظم نذیر تارڑ اور سید علی ظفر جب کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر ڈاکٹر زرقا سہروردی اور سعدیہ عباسی بھی شامل ہیں۔

اِسی طرح الیکشن کمیشن کے مطابق ساجد میر، عرفان الحق صدیقی، اعجاز چوہدری، عون عباس، کامل آغا جنرل نشستوں پر کامیاب قرار پائے ہیں۔

الیکشن کمیشن پنجاب کے مطابق سیف اللہ سرور نیازی اور افنان اللہ خان بھی بلامقابلہ پنجاب سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق پنجاب سے سینیٹ انتخابات کے لیے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی خاصے متحرک تھے جنہوں نے حزبِ اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہوں سے گفتگو کی اور اُمیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرایا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے'

'سیاسی جماعتوں نے بغاوت کے خوف سے ایسا کیا'

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو صوبہ پنجاب کی سطح تک سینیٹ انتخابات کے لیے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف چوہدری پرویز الٰہی، کامل علی آغا کو سینیٹر بنوانا چاہتے تھے تو دوسری طرف وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار مسلم لیگ (ن) کے کچھ ارکانِ اسمبلی کے ساتھ رابطے میں تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ عمران خان نے اپنے گزشتہ دورۂ لاہور میں اعلان تو کامل علی آغا کے حق میں کر دیا کہ وہ اُن کے متفقہ اُمیدور ہوں گے۔ لیکن عثمان بزدار کی ارکانِ اسمبلی پر گرفت نہیں تھی یعنی ایم پی ایز اُن کی بات نہیں مان رہے تھے۔

حامد میر کے بقول پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک اُمیدوار سیف الملوک کھوکھر (ن) لیگ کی پنجاب اسمبلی میں نشستوں کے تناسب سے اضافی اُمیدار تھے۔

اُنہوں نے اپنی جماعت سے کہا کہ صرف ٹکٹ دے دیں باقی کام وہ سنبھال لیں گے۔ لہذٰا پارٹی نے اُنہیں ٹکٹ دے دیا اور اُنہوں نے اِس کے لیے لابنگ شروع بھی کر دی۔

حامد میر کے بقول پیپلز پارٹی کی طرف سے یوسف رضا گیلانی اپنے داماد کو بھی سینیٹ الیکشن لڑا رہے تھے اور اُنہوں نے 35، 40 اراکینِ اسمبلی سے رابطے بھی کیے تھے۔

خیال رہے کہ صوبے سے سینیٹر کے اُمیدوار کا انتخاب وہاں کی صوبائی اسمبلی کے اراکین کرتے ہیں اور یہ انتخاب خفیہ بیلٹنگ کی وجہ سے ماضی میں متنازع بھی ہوتا رہا ہے۔

سینیٹ انتخاابت تین مارچ کو شیڈول ہیں۔ (فائل فوٹو)

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کی رائے میں صوبہ پنجاب سے بلامقابلہ سینیٹ کا انتخاب تمام سیاسی جماعتوں کے فائدے میں تھا۔ پی ٹی آئی کو یہ خوف تھا کہ اُن کی جماعت کے لوگ اِدھر اُدھر نہ ہو جائیں۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کو بھی ڈر تھا کہ اُن کے فارورڈ بلاک بنے ہوئے ہیں۔ تو سب نے یہی مناسب سمجھا کہ بغیر الیکشن کے ہی فیصلہ ہو جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرئے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ ایسی صورتِ حال میں چوہدری پرویز الہٰی نے پہل کی۔ اُس سے پہلے پی ٹی آئی یہ سمجھتی تھی کہ اگر وہ مفاہمت کرتی ہے تو کہیں یہ تاثر نہ جائے کہ کوئی ڈیل کر لی ہے۔

حامد میر کے بقول بہت سے حکومتی ارکان عثمان بزدار سے نالاں ہیں اور اُنہوں نے صرف اس وجہ سے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر صوبہ پنجاب میں سینیٹ الیکشن ہو جاتا تو قوی امکان تھا کہ پی ٹی آئی کی کچھ نشستیں کم ہو جاتیں۔

'چوہدری پرویز الہٰی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا'

ادھر بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہونے والے مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا کا کہنا ہے کہ اس کا کریڈٹ چوہدری پرویز الہٰی کو جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کامل علی آغا نے بتایا کہ سینیٹ الیکشن کے لیے ایک اُمیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے کھڑا تھا۔ اُس کے کاغذات واپس لینے میں اہم کردار ادا کیا گیا۔ کامل علی آغا کے مطابق پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کے پاس قابلِ ذکر نمبرز موجود نہیں تھے لیکن اگر وہ الیکشن لڑتے تو ووٹنگ پر اثرانداز ضرور ہوتے۔

اُن کے بقول چوہدری پرویز الہٰی نے ہارس ٹریڈنگ اور پیسے کا استعمال روکنے کے لیے دونوں جماعتوں سے رابطے کیے جس کے بعد ان کے اضافی اُمیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی واپس لیے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی نے بلامقابلہ سینیٹرز منتخب کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

سہیل وڑائچ کے بقول سیاسی طور پر پرویز الہٰی کا سیاسی قد کاٹھ عثمان بزدار سے بڑا ہے۔ جس کی وجہ اُن کا طویل سیاسی تجربہ ہے۔ وہ دو مرتبہ بطور اسپیکر جب کہ ایک مرتبہ پنجاب کے وزیرِ اعلٰی اور پھر وفاقی حکومت میں بھی مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔

حامد میر سمجھتے ہیں کہ عثمان بزدار کے مقابلے میں چوہدری پرویز الہٰی صوبے کی سیاست میں خاصے متحرک ہیں۔ اُن کی رائے میں جب تک پرویز الٰہی، عثمان بزدار کی حمایت کرتے رہے تو اُنہیں کوئی زیادہ مسائل کا سامنا نہیں تھا۔ لیکن جب سے دونوں کے درمیان فاصلے بڑھے ہیں تو عثمان بزدار نے وزیراعظم صاحب کو اِن کی ایک شکایت بھی لگائی تھی۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کی رائے میں پنجاب کے سینیٹ الیکشن میں سیاسی طاقتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سب نے ہی سمجھداری کا مظاہر کیا ہے۔ اُن کے بقول یہ سوچ تو پی ٹی آئی کے اندر بھی موجود تھی لیکن پہل (ق) لیگ نے کی ہے۔

اُن کے بقول سب کو یہ ڈر تھا کہ سبکی ہو گی۔ فرض کریں اگر تحریکِ انصاف کے 10 لوگ بھی ووٹ نہ ڈالتے پھر تلاش شروع ہو جاتی کہ وہ 10 لوگ کون ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے ووٹ ٹوٹتے تو بھی ہنگامہ ہوتا کہ پارٹی میں فارورڈ بلاک بن گیا۔ لہذٰا سب نے مفادات کے پیشِ نظر اپنے اُمیدواروں کو بلامقابلہ انتخاب کرانے پر اتفاق کیا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ صوبۂ پنجاب میں سینیٹ الیکشن کے موقع پر کوئی خفیہ طاقت سامنے نہیں آئی اور وہ خاموش ہو کر بیٹھی ہوئی ہے۔