اوکسانا چوسوویٹینا: جمناسٹکس کی لیجنڈ ازبک کھلاڑی نے بہت سے تصورات بدل دیے

اوکسانا چوسوویٹینا کو جمناسٹکس کے عالمی مقابلوں میں تین ممالک کی نمائندگی کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔

اوکسانا چوسوویٹینا کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان کے ساتھی جمناسٹکس کی اس لیجنڈ کھلاڑی کو رخصت کرتے ہوئے خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے فرطِ جذبات سے کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے تھے۔

دنیا نے یہ منظر ٹوکیو میں جاری اولمپکس مقابلوں کے اس ہال میں دیکھا جہاں اوکسانا اپنے تین دہائیوں پر محیط کریئر کے آخری مقابلے میں شریک تھیں۔

اوکسانا 25 جولائی کو ٹوکیو اولمپکس میں ازبکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 'جمناسٹکس والٹ' کے خواتین کے مقابلوں میں کامیاب نہیں ہوسکیں اور انہوں نے اس کھیل کو خیرباد کہنے کا اعلان بھی کر دیا۔

البتہ اپنے کریئر کے دوران اوکسانا جمناسٹکس، اولمپکس اور کھیلوں کی تاریخ کے کئی اعزازات اپنے نام کرنے میں کامیاب رہیں۔

جمناسٹکس ایسا کھیل ہے جس میں کھلاڑی کو اپنی جسمانی تندرستی کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جسمانی طاقت اور لچک کو برقرار رکھنے کے لیے سخت مشق اور ورزش کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمناسٹکس کے اکثر مرد و خواتین کھلاڑی جلد ہی اسے خیر باد کہہ دیتے ہیں۔

البتہ اوکسانا نے 46 سال کی عمر تک اس کھیل میں قدم جمائے رکھے اور جمناسٹکس کے حوالے سے کئی روایتی تصورات کو بدل کر رکھ دیا۔

تین ملکوں کی نمائندگی اور آٹھ اولمپکس

اوکسانا چوسوویٹینا 13 برس کی عمر میں پہلی بار جمناسٹکس کے عالمی مقابلوں میں شریک ہوئیں۔ اس وقت وہ سوویت یونین کی نمائندگی کر رہی تھیں۔

دسمبر 1991 میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوچکا تھا لیکن اس میں شامل گیارہ ممالک کو اپنی ٹیمیں تیار کرنے کا وقت نہیں مل سکا تھا اس لیے انہوں نے گیارہ ممالک پر مشتمل 'یونیفائیڈ ٹیم' کی حیثیت سے 1992 میں بارسلونا میں ہونے والے اولمپکس میں حصہ لیا۔

اوکسانا اپنے ملک ازبکستان کی طرف سے اس ٹیم کا حصہ بنیں اور طلائی تمغہ حاصل کیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

بلوچستان کی تاریخ کی پہلی ویمن کرکٹ لیگ

اس کامیابی کے 16 برس بعد جب 2008 میں بیجنگ کے اولمپکس میں اوکسانا نے جمناسٹکس کے مقابلوں میں چاندی کا تمغہ لیا تو وہ جرمنی کی نمائندگی کر رہی تھیں۔

انہیں اپنے بیٹے کے علاج کے سلسلے میں جرمنی منتقل ہونا پڑا تھا اور اولمپکس میں شرکت کے لیے وہ ازبکستان واپس نہیں آسکی تھیں۔ اس لیے اولمپکس میں جرمنی کے پرچم تلے شریک ہوئی تھیں۔

اس کے بعد اگلے اولمپکس مقابلوں میں انہوں ںے ازبکستان کی نمائندگی کی۔ انہیں چار مواقع پر تین الگ الگ ممالک کی نمائندگی کرنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔

اوکسانا جمناسٹکس میں طویل ترین کریئر کا ریکارڈ بنانے والی خاتون جمناسٹ ہیں۔ اس دوران وہ آٹھ اولمپکس مقابلوں میں شریک ہوئیں اور مجموعی طور پر 13 عالمی اور اولمپکس میڈل اپنے نام کیے جن میں جمناسٹکس والٹ کی ورلڈ چیمپئن شپ کے نو تمغے بھی شامل ہیں۔

اوکسانا نے جمناسٹکس کی سبھی اقسام میں فن کا مظاہرہ کیا لیکن جمناسٹکس والٹ میں ان کی مہارت سب سے نمایاں رہی۔

جمناسٹکس کی اس قسم میں کھلاڑی دوڑتے ہوئے گھوڑے کی کاٹھی سے ملتے جلتے تختے، جسے اس کھیل کی اصطلاح میں 'والٹنگ ہارس' کہا جاتا ہے، پر ہاتھ رکھ کر قلابازی کھاتے ہوئے دوسری جانب اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔

متبادل سے بے بدل تک

دلچسپ بات یہ ہے کہ اوکسانا جب پہلی مرتبہ امریکہ کی ریاست انڈیاناپولس میں جمناسٹکس کے عالمی مقابلوں میں شریک ہوئیں تو انہیں سوویت یونین کی ٹیم میں متبادل کے طور پر رکھا گیا تھا۔

مقابلوں میں شریک ان کی ٹیم کی ساتھی یلینا گرڈنیوا زخمی ہوگئیں اور اوکسانا کو فن کے مظاہرے کا موقع مل گیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں اولمپکس کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟

برطانوی اخبار 'گارڈین' میں کھیلوں کے لکھاری ٹومینی کارایول نے لکھا ہے کہ وہ ایک متبادل کے طور پر میدان میں اتری تھیں لیکن طلائی تمغہ جیت کے ایک اسٹار کی طرح واپس آئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اوکسانا کے کریئر کے 30 برسوں میں ان کی اختراع کرنے کی صلاحیت نے انہیں دنیا کی توجہ کا مرکز بنائے رکھا۔

اوکسانا کہتی ہیں کہ طویل کریئر میں جمناسٹکس سے جنون کی حد تک وابستگی نے ان کی جستجو کو قائم رکھا۔ وہ اس سے قبل 2012 کے لندن اولمپکس میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکی تھیں لیکن انہوں نے چوبیس گھنٹے بعد ہی اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا تھا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اوکسانا چوسوویٹینا کا کہنا ہے کہ اس طویل کریئر کا کوئی اور راز نہیں۔

ان کے بقول، ''مجھے صرف جمناسٹکس سے محبت ہے اور کبھی کسی نے مجھے اس کے لیے مجبور نہیں کیا۔ میں اسے اپنی خوشی کے لیے کرتی ہوں۔''

خوشی کے آنسو

اوکسانا چوسووٹینیا نے ٹوکیو میں جب بطور کھلاڑی اپنا کریئر ختم کرنے کا اعلان کیا تو ان کے ساتھیوں اور دیگر کھلاڑیوں نے پُرجوش طریقے سے کھڑے ہوکر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور تالیاں بجاتے ہوئے انہیں رخصت کیا۔

SEE ALSO: خواتین کا اپنی مرضی کا لباس پہننے کا حق، جرمن جمناسٹک ٹیم کی فل باڈی لباس میں شرکت

اگرچہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہال میں کھیل کے شائقین کو آنے کی اجازت نہیں تھی لیکن پھر بھی یہ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا اور اوکسانا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اتنے لوگوں کی جانب سے سراہتے دیکھ ان کی آنکھوں میں آنے والے یہ آنسو خوشی کے ہیں۔

اپنے اس طویل سفر کے بعد اوکسانا اب اپنی کامیابیوں کا جشن منانے، اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے اور کچھ عرصہ آرام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

وہ اب جمناسٹکس کے مقابلوں میں کھلاڑی کے طور پر تو شریک نہیں ہوں گی لیکن انہوں نے اس کھیل سے اپنا رشتہ توڑا نہیں ہے۔ وہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ایک اسپورٹس کلب قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

اوکسانا کا کہنا ہے''جمناسٹکس میں وقت لمبا کھنچ گیا اور اب بہت زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔''

کھیل کے شائقین اور مبصرین کے نزدیک جمناسٹکس کی تاریخ میں اوکسانا چوسویٹینا کا نام فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

اس تحریر میں شامل بیشتر معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔