ملا برادر کون ہیں؟

  • شہناز نفيس

ملا عبدالغنی برادر، فائل فوٹو

ملا عبدالغنی برادر پاک افغان سرحد کے دونوں جانب آباد ایک پشتون قبیلے پوپلزئی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ زیادہ تر طالبان کے مرکز افغانستان کے صوبے قندھار میں رہ چکے ہیں۔

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک پاکستانی صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ ملا برادر 1994 میں افغان تحریک طالبان کو تشکیل دینے کی میٹنگ میں موجود 33 افراد میں شامل تھے۔ صوبہ ہرات کے گورنر اور طالبان فوج کے سربراہ ہونے کے علاوہ، انہوں نے طالبان جنگجوؤں کے لئے ایک کتابچے کی شکل میں ضابطہ اخلاق بھی تحریر کیا۔ تاہم، انہیں زیادہ تر ایک جنگجو کمانڈر کے طور پر جانا جاتا تھا۔

سن 2001 میں طالبان کی حکومت گرنے کے بعد، امریکہ، نیٹو اور افغان فورسز کے خلاف لڑائی کے لئے لائحہ عمل بنانے میں ملا برادر کا اہم کردار تھا۔

ملا برادر کو 2010 میں کراچی میں حراست میں لیا گیا۔ 8 برس تک پاکستان کی حراست میں رہنے کے بعد انہیں گزشتہ برس رہا کر دیا گیا۔ جس کے بعد طالبان کا فیصلہ کرنے والے سب سے بڑے ادارے رہبری شوریٰ میں ان کی رکنیت بحال ہوئی۔ اور اب ملا عبدالغنی برادر کو قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کی قیادت سونپنے کے ساتھ ساتھ طالبان تحریک کے امیر ملا ہیبت اللہ کا سیاسی امور کے لے نائب بھی مقرر کیا گیا ہے۔

ملا برادر کی تقرری کے امریکہ اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات پر اثرات:

رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ ویسے تو قطر میں گذشتہ چار دن سے جاری مذاکرات سے متعلق اہم پیش رفت کی خبریں گردش کر رہی ہیں، لیکن اب ملا برادر کی قیادت میں بات چیت کے عمل کو تحریک ملے گی۔ مذاکرات کرنے والا کمیشن زیادہ بااختیار ہو گا اور رہبری شوریٰ سے مشوروں کی بجائے اب وہ خود اپنے طور پر فیصلہ کر سکے گا۔

تاہم، وہ کہتے ہیں کہ ملا برادر کے آنے سے افغانستان کے موجودہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بلکہ ان کے آنے سے طالبان کے اندر مختلف دھڑوں میں اتفاق کے امکانات بڑھے ہیں۔

امریکہ میں مقیم سیکورٹی امور کے ماہر کامران بخاری کا کہنا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ جاری مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، ملا برادر کے آنے سے قطر دفتر کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ قطر دفتر کے عہدیداروں میں شامل وہ واحد شخصیت ہوں گے جو رہبری شوریٰ کے ممبر بھی ہیں اور اب مذاکرات میں کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد ممکن ہو گا۔

ملابرادر کے آنے سے مذاکرات کی میز پر پاکستان کے مفادات کو تقویت ملے گی؟

رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستان کے ملا برادر کے ساتھ اچھے تعلقات ضرور رہے ہیں۔ لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ ان کی قیادت میں امریکہ سے مذاکرات پاکستان کی شرائط پر ہوں گے۔ ان کی نظر میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان نے کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ملا برادر کو امریکہ کے کہنے پر پاکستان نے رہا کیا ہے۔

دوسری جانب، کامران بخاری کہتے ہیں کہ 2010 میں ملا برادر کو پاکستان نے اس لئے گرفتار کیا تھا کہ وہ پاکستان سے ہٹ کے کرزئی حکومت سے مذاکرات کر رہے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ملا برادر پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ سے بات چیت کریں گے۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ قطر آنے سے پہلے پاکستان نے ملا برادر کو ضرور اعتماد میں لیا ہو گا۔

اس وقت قطر میں طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق، ملا برادر طالبان کی اس بات چیت میں قیادت کرنے کے لئے پاکستان سے قطر پہنچ چکے ہیں، جبکہ امریکہ کی رہنمائی زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں۔