عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ اندازاً 20000 اضافی لوگ ایڈز کے موذی مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں، جسے خطے کے تمام ملکوں کے مقابلے میں بیماری کا تیز ترین اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی ادارے کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے متاثرہ پاکستانی، جس کے وجہ سے ایڈز کا مہلک مرض فوتگی کا باعث بنتا ہے، بھی پھیل رہا ہے، ایسے میں جب زندگی بچانے کا علاج دستیاب ہے۔
تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 'ایچ آئی وی' سے متاثرہ اندازاً 150000افراد میں سے محض 16 فی صد کا طبی تجزیہ کرایا گیا ہے، جب کہ صرف 9 فی صد کو زندگی بچانے کی نوعیت کے علاج معالجے تک رسائی حاصل ہے۔
'قومی ایڈز کنٹرول پروگرام' سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سائمہ پراچہ نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ''باقی ماندہ 135000 افراد ایڈز کی بیماری کے ساتھ معاشرے میں چل پھر رہے ہیں، جو صحت مند لوگوں تک اس موذی مرض پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں، جس میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو ابھی حمل میں ہیں''۔
سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 'ایچ آئی وی' کی وبا زیادہ تر خاص آبادیوں تک محدود ہے، اُن میں وہ بھی شامل ہیں جو منشیات کے انجیکشن لیتے ہیں، خواجہ سرا برادری، فحش حرکات میں ملوث کارکنان، اُن کے قرابت دار یا وہ مرد جو مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے ہوں۔
ڈاکٹر پراچہ نے متنبہ کیا کہ ''اس موذی مرض کے پھیلائو کے عوامل اب جنسی نیٹ ورکس کی صورت اختیار کر گئے ہیں، جو عام لوگوں میں 'انفیکشن' پھیلانے کے موجب بنتے ہیں''۔
پراچہ نے کہا کہ حکومت پاکستان 'ایچ آئی وی' کا طبی معائنہ اور علاج مفت ہوتا ہے، لیکن اُنھوں نے اس جانب دھیان مبذول کرایا کہ خاص پسماندہ آبادیاں معاشرے میں تیزی سے پھیلتے ہوئے مرض اور امتیازی سلوک کی شکار ہیں۔
قانون کے نفاذ سے وابستہ اہلکاروں کی جانب سے بُرے سلوک کے خوف اور تادیبی کارروائیوں کے ڈر کی وجہ سے متاثرہ لوگ طبی معائنے کی جانب آنے اور حقائق کا سامنا کرنے سے قطراتے ہیں۔ اُنھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہی سبب ہے کہ علاج اور مرض کے پھیلائو کو روکنے کی قومی کاوشیں بارآور ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔
حکام کے اندازے کے مطابق، سال 2010 سے اب تک پاکستان میں 'ایچ آئی وی انفیکشنز' کے حوالے سے 45 فی صد تک کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی پاکستان کی سربراہ، ڈاکٹر نیما سعید عابد نے کہا ہے کہ ''ایچ آئی وی انفیکشنز کا اضافی عدد ڈرامائی طور پر بڑھتا ہی رہے گا، اگر مداخلتی انداز اپنانے کی راہ میں اِسی نوع کی رکاوٹیں لاحق رہیں گی''۔