پاکستان کے شہر لاہور کے لوہاری چوک پر جمعرات کو ہونے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کرنے والی بلوچ شدت پسند تنظیم، بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) حال ہی میں وجود میں آئی تھی اور یہ تنظیم کی دوسری کارروائی قرار دی جا رہی ہے۔
اس سے قبل یہ تنظیم 19 جنوری کو بلوچستان کے علاقے کولوا میں سیکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کر چکی ہے جس کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ خیال رہے کہ کولوا ضلع آواران کا پرانا نام ہے۔
ماہرین اس تنظیم کے قیام کی وجہ بلوچستان میں فعال علیحدگی پسند گروہوں میں جاری اختلافات، ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کو قرار دے رہے ہیں جس کا عمل کئی برسوں سے جاری ہے۔
رواں ماہ بھی بلوچستان کی دو اہم علیحدگی پسند تنظیموں بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کی یورپ میں مقیم قیادت اور بلوچستان میں فعال مزاحمت کاروں کے مابین اختلافات سامنے آئے تھے۔
ان اختلافات کے باعث ’بلوچ نیشنلسٹ آرمی‘ نامی ایک نئی تنظیم ابھر کر سامنے آئی ہے جس نے اپنے قیام کے 10 روز بعد ہی لاہور کے لوہاری چوک میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کر کے اپنی کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔
'بی این اے' کے ترجمان مرید بلوچ نے ٹوئٹر پر حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حملے کا نشانہ نجی بینک کے ملازمین تھے۔
ؒخیال رہے کہ لاہور دھماکے میں کم از کم دو افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
بلوچ نیشنلسٹ آرمی کا قیام
رواں ماہ 11 جنوری کو دو بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) اوریونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے ترجمانوں کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں ایک نئی علیحدگی پسند تنظیم 'بی این اے' کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق دو گروہوں کی کمانڈ کونسلز کی ایک میٹنگ بلوچستان میں ہوئی جہاں ’بلوچ قومی سیاسی اور مزاحمتی جنگ پر مفصل اور سیر حاصل بحث کی گئی۔
دونوں تنظیموں نے مزاحمت کو آگے بڑھانے کے لیے 'بی آر اے' اور 'یو بی اے' کو تحلیل کر کے 'بی این اے' کے نام سے قومی مزاحمتی جنگ کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ نئے تشکیل کردہ گروپ کے ذرائع ابلاغ میں ترجمان صرف مرید بلوچ ہوں گے جب کہ تنظیم کے آفیشل چینل کا نام “باسک” ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اعلامیے میں بھی یہ فیصلہ کیا گیا کہ نئی تشکیل کردہ تنظیم بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نامی مشترکہ محاذ کا حصہ ہو گی جو پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
(براس) محاذ جولائی 2020 میں بلوچ قوم پرست رہنما اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی چار تنظیموں نے تشکیل دیا تھا۔
بعد ازاں اس میں سندھ کی ایک عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش ریوولوشنری آرمی بھی شامل ہو گئی تھی۔
نئی تنظیم وجود میں کیوں آئی؟
بلوچستان میں فعال دو اہم علیحدگی پسند تنظیموں 'بی آر اے' اور 'یو بی اے' کی یورپ میں مقیم قیادت سے اختلافات کی بنیاد پر دونوں تنظیموں کے مقامی کمانڈرز نے 'بی این اے' نامی نئے گروہ کے قیام کا اعلان کیا۔
بی آر اے کی سربراہی معروف بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی کر رہے ہیں جو اس وقت یورپ میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یورپ میں اپنے قیام کو قانونی پیچیدگیوں سے بچانے کے لیے انہوں نے بلوچ ری پبلکن پارٹی (بی آر پی) نامی تنظیم بھی بنا رکھی ہے جسے وہ سیاسی فرنٹ کے طور پراستعمال کرتے ہیں۔
بلوچستان میں سرگرام ایک اور تنظیم 'یو بی اے' ہے جس کی قیادت سینئر بلوچ سیاسی رہنما خیربخش مری کے بیٹے مہران مری کے پاس ہے اور وہ بھی یورپ میں مقیم ہیں۔
سیکیورٹی ماہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ 'بی آر پی' اور 'یو بی اے' میں کئی برسوں سے یورپ میں مقیم قیادت اور بلوچستان میں سرگرم مزاحمت کاروں کے مابین اختلافات کی نوعیت سنگین ہونے کی وجہ سے 'بی این اے' وجود میں آئی۔
بلوچستان کی علیحدگی پسند شورش کا مطالعہ کرنے والے صحافی کیا بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 'بی آر پی' اور 'یو بی اے' کے ساتھ ساتھ حربیار مری کی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اس وقت دھڑے بندی کا شکار ہے۔
اُن کے بقول اس کی اہم وجہ یورپ میں مقیم ان تینوں تنظیموں کی قیادت اور صوبے میں موجود کمانڈروں اور مزاحمت کاروں کے مابین اعتماد کا فقدان ہے اور 'بی این اے' بھی حال ہی میں اسی عدم اعتماد کے سبب وجود میں آئی ہے۔
ان کے بقول ’’براہمداغ بگٹی کی 'بی آر پی' کے دھڑے کی قیادت سابق طالبِ علم رہنما گلزار امام سنبھال چکے ہیں جب کہ مہران مری کی تنظیم کے دھڑے کی قیادت سرفراز بنگلزئی کے پاس ہے۔ اسی طرح حربیار مری کی بی ایل اے کی بلوچستان میں قیادت بشیر زیب کے پاس موجود ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ بشیر زیب نے بی ایل اے کے دھڑے کی سربراہی دسمبر 2018 میں افغانستان کے شہر قندھار میں خود کش حملے میں کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو کی ہلاکت کے بعد سنبھالی ہے۔
کیا بلوچ کا کہناہے کہ ’’تین علیحدگی پسند گروہوں کے سربراہان کا سرداروں کے خاندان سے تعلق ہونے کی بنا پر یہ اختلافات مزید سنگین ہوئے ہیں جب کہ بلوچستان میں ان تنظیموں کی قیادت سنبھالنے والے مڈل اور لوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اندرونی معاملات سے باخبر بلوچستان کے ایک سابق رکن اسمبلی نے وائس اف امریکہ کو نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ یورپ میں براہمداغ بگٹی اور مہران مری کے خلاف کیسز ہونے کی وجہ سے دونوں رہنما لو پروفائل (Low profile) زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول جس کی وجہ سے بلوچستان میں فعال ان کے کمانڈروں اور مزاحمت کاروں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تنظیموں میں کافی برسوں سے یہ بحث چل رہی ہے کہ سرداروں کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے رہنما پرتعیش زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب کہ مڈل اور لوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے مزاحمت کار صوبے میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
سابق رکن اسمبلی کے مطابق ’’براہمداغ بگٹی 2018 میں ہی اپنے اہم کمانڈر گلزار امام عرف شمبے کو تنظیم سے خارج کر چکے ہیں جس کے بعد انہوں نے اپنا دھڑا تشکیل دیا تھا جو اب ’براس‘ نامی اتحاد کا بھی حصہ ہے۔‘‘
بی آر پی میں دھڑے بندی کے بعد گلزار امام نے ایک بیان میں یورپ میں مقیم رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ “بلوچ تحریک کی وہ قیادت جو سردار گھرانوں پر مشتمل ہے، انہیں کارکنان کے ساتھ قبائلی رویہ برتنا ترک کرنا پڑے گا اور تنظیم کے اندر موجود مسائل کا حل قبائلی نہیں بلکہ سیاسی طریقۂ کار سے نکالنا پڑے گا۔
'یو بی اے' 2010 میں اس وقت بی ایل اے سے علیحدہ ہو کر الگ تنظیم بنی تھی جب گروہ کے سربراہ حربیار مری نے اپنے چھوٹے بھائی مہران مری پر فنڈز کی خردبرد کا الزام لگایا تھا۔
'یو بی اے' بھی گزشتہ سال اگست میں اس وقت تقسیم کا شکار ہوئی جب مہران مری اور تنظیم کے کمانڈر اور ترجمان سرفراز بنگلزئی عرف مرید بلوچ کے مابین اختلافات پیدا ہوئے تھے۔ اگست میں ہی مہران مری کی جانب سے سرفراز بنگلزئی کو تنظیم سے نکالنے کا اعلان بھی کیا گیا۔
'بی آر پی' اور 'یو بی اے' کے دھڑوں نے رواں ماہ ہی انضمام کا اعلان کر کے 'بی این اے' نامی تنظیم کا اعلان کر دیا۔
بلوچستان میں فعال عسکری تنظیمیں
بلوچستان میں اس وقت متعدد عسکری تنظیمیں فعال ہیں جن میں مبینہ طور پر بيشتر پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کے حق ميں ہيں۔ پاکستان کی حکومت ان تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر کالعدم کر چکی ہے۔
مبصرین کے مطابق ان عسکری تنظیموں میں سب سے با اثر اللہ نذر بلوچ کی ’بلوچ لبریشن فرنٹ‘ (بی ایل ایف) ہے جو بلوچستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ سرداری نظام کے بھی خلاف ہے۔ یہ تنظیم ابھی تک کسی بھی دھڑے بندی کا شکار نہیں ہوئی ہے۔
حربیار مری اور بشیر زیب کی قیادت میں فعال 'بی ایل اے' کے دو دھڑے، مہران مری کی 'یو بی اے'، براہمدغ بگٹی کی 'بی آر پی' اور جاوید مینگل کی لشکرِ بلوچستان صوبے کی دیگر فعال عسکری تنظیموں میں شامل ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز (بی آر جی) کچھ برس میں ایک نمایاں عسکریت پسند تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔
بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں فعال طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او آزاد) کو بھی حکومت کالعدم قرار دے چکی ہے۔ اس پر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
اللہ نذر بلوچ، بشیر زیب اور گلزار امام زمانۂ طالب علمی میں بی ایس او (آزاد) کے رہنما رہ چکے ہیں۔