صحت عامہ کے حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین اگر بہت جلد بھی بنی تو اس سال کے آخر تک دستیاب ہوسکے گی۔
لیکن، سائنس دانوں نے کبھی کوئی ویکسین اتنی جلدی نہیں بنائی۔ اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ جن دواؤں پر کام جاری ہے، وہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکے گا۔
دنیا بھر میں کرونا وائرس کی سو سے زیادہ ممکنہ ویکسینز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان میں سے درجن بھر کے انسانوں پر تجربات کا آغاز ہوگیا ہے۔ جن ویکسینز کے حوصلہ افزا نتائج ملیں گے، انھیں موسم گرما میں زیادہ بڑے پیمانے پر آزمایا جائے گا۔
ان ویکسینز کے محفوظ اور موثر ہونے کے بارے میں تحقیق کے نتائج کتنی جلدی مل سکتے ہیں، اس کا کسی حد تک انحصار اس بات پر ہے کہ کرونا وائرس اب بھی کتنے بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے۔
ہر ممکنہ ویکسین کے تجربے کے لیے کم از کم 20 ہزار رضاکاروں کی ضرورت ہوگی۔ ان میں سے نصف کو اصلی ویکسین لگائی جائے گی اور باقی کو جعلی دوا دی جائے گی۔ اس کے بعد انتظار کرنا پڑے گا کہ ان میں سے کتنے لوگ وائرس کا شکار ہوتے ہیں۔
ویکسین کے موثر ہونے کے سوال کا جواب جلدی مل سکتا ہے اگر رضاکار ان مقامات پر مل جائیں جو وبا سے بدترین متاثر ہوں۔ لیکن اس بارے میں پیش گوئی کرنا دشوار ہوتا ہے۔
ویکسین کی منظوری ملنے کے بعد اس کی بڑے پیمانے پر پیداوار میں کافی وقت لگتا ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ ویکسین تجربات کے نتائج آنے سے پہلے ان کی وسیع پیمانے پر پیداوار شروع کردی جائے۔ لیکن، یہ ایک جوا ہوگا، کیونکہ ہر ناکام تجربے کے بعد ٹنوں کی مقدار میں دوا ضائع کرنا پڑے گی۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ویکسین بننے کے باوجود اس بات کا امکان ہے کہ کرونا وائرس کبھی ختم نہیں ہوگا۔ پولیو اور خسرہ جیسی بیماریوں کی ویکسینز عشروں سے موجود ہیں، لیکن اب بھی ان کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔