ویب ڈیسک —صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں انگریزی کو امریکہ کی سرکاری زبان قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی آزادی کو تقریباً 250 سال مکمل ہونے والے ہیں اور پہلی بار کسی سرکاری اور قانونی دستاویز میں انگریزی کی یہ حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔
یکم مارچ کو صدر ٹرمپ کے جاری کیے گئے حکم نامے میں کہا گیا ہے انگریزی کو سرکاری زبان قرار دینے سے قومی اتحاد کو فروغ، حکومتی کارکردگی میں بہتری اور مشترکہ اقدار کے ساتھ ایک مستحکم سوسائٹی بنانے میں مدد ملے گی۔
محکمہ شماریات کے مطابق امریکہ میں اس وقت 350 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سب سے زیادہ انگریزی ہی بولی اور لکھی جاتی ہے۔ انگریزی کے بعد زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ہسپانوی، چینی، تگالگو(فلپائن کی ایک زبان)، ویتنامی اور عربی شامل ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق 2019 تک امریکہ کی آبادی میں شامل چھ کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد اپنے گھر میں انگریزی کے علاوہ کوئی اور زبان بولتے تھے۔
امریکی تاریخ کے کئی اسکالرز کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اپنی آزادی کے وقت ہی سے مختلف زبانیں بولنے والے موجود تھے۔ اس لیے آئین بنانے والوں نے دیگر زبانیں بولنے والوں کو بے گانگی کے احساس سے بچانے کے لیے کوئی ایک سرکاری زبان مقرر نہیں کی۔
صدر ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کا اعلانِ آزادی اور آئین انگریزی میں لکھے گئے تھے۔ اس لیے انگریزی کو پہلے ہی سرکاری زبان کی حیثیت مل جانی چاہیے تھی۔
ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ اتحاد و یگانگت کے علاوہ حکومتی کارکردگی کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے وفاقی حکومت کا مفاد اسی میں ہے کہ صرف ایک زبان کو سرکاری زبان مقرر کیا جائے۔
انگریزی کو سرکاری زبان بنانے کی کوششیں
امریکہ میں انگریزی کے سرکاری زبان کے طور پر رائج ہونے سے متعلق 1900 کی ابتدا میں صدر تھیوڈور روزویلٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا اس ملک میں صرف ایک ہی زبان کی گنجائش نکل سکتی ہے اور وہ انگریزی ہے۔
اس کے بعد 1960 کی دہائی میں جب شہری حقوق کی تحریک کے دوران کانگریس نے کئی قوانین مںظور کیے جن سے بیلٹ پیپر اور دیگر کئی اہم سرکاری دستاویزات بھی دیگر زبانوں میں فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔اسی کے ساتھ انگریزی کو سرکاری زبان بنانے کے لیے 'انگلش اونلی' جیسی تحریکیں بھی چلتی ر ہیں اور انگریزی کو سرکاری زبان بنانے کے حق میں آواز اٹھائی جاتی رہیں۔
گزشتہ دہائیوں کے دوران کانگریس میں انگریزی کو سرکاری زبان قرار دینے کے لیے بھی قانون سازی کی کوششیں جاری رہیں جنہیں کامیابی نہیں مل سکی۔
SEE ALSO: صدر ٹرمپ کا حکم نامہ؛ انگریزی امریکہ کی سرکاری زبان قراراس سلسلے میں حالیہ کوشش 2023 میں اُس وقت کی گئی جب کانگریس کے ری پبلکن ارکان سینیٹر کیون کارمر اور ری پبلکن رکن جے ڈی وینس نے انگلش یونیٹی ایکٹ متعارف کرایا۔ جے ڈی وینس اس وقت امریکہ کے نائب صدر ہیں۔
امریکہ کی 30 سے زائد ریاستوں میں انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیا جاچکا ہے جب کہ ہوائی واحد ایسی ریاست ہے جہاں دو سرکاری زبانیں ہیں ۔انگریزی کے ساتھ ساتھ ہوائین زبان کو بھی ریاست ہوائی میں آفیشل لینگویج قرار دیا گیا ہے۔
انگریزی کو سرکاری زبان بنانے پر خدشات
صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر سے ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن کے دور میں شروع کی گئی پالیسی منسوخ ہوگئی ہے جس کے تحت وفاقی اداروں اور وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والے اداروں کے لیے انگریزی نہ بولنے والوں کے لیے دیگر زبانوں میں معاونت فراہم کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فور ڈیموکریسی اینڈ الیکٹرول اسسٹنس کے مطابق حکومت روز مرہ نوعیت کے سرکاری امور چلانے کے لیے جو زبان استعمال کرتی ہے، وہی اس کی سرکاری زبان ہوتی ہے۔ ایک یا ایک سے زیادہ سرکاری زبانیں ہونا کسی بھی قوم کی مجموعی شناخت کا تعین کرتی ہے۔
حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم یونائیٹڈ وی اسٹینڈ کا مؤقف ہے کہ انگریزی کو سرکاری زبان قرار دینے سے خاص طور پر ایسے افراد کے لیے شہریت حاصل کرنے کے مراحل میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جو ایک خاص عمر تک پہنچ چکے ہیں اور انہیں انگریزی نہیں آتی۔
امریکہ میں شہریت کے لیے ایسے افراد کو اپنی زبان میں ٹیسٹ یا انٹرویو دینے کی رعایت دی جاتی ہے جو ایک خاص عمر تک پہنچنے کے باوجود انگریزی نہ جانتے ہوں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ اگر اس حکم نامے کے بعد انہیں اپنی زبان میں ٹیسٹ یا انٹرویو دینے کی رعایت نہیں دی جاتی تو ان کے لیےمشکلات بڑھ سکتی ہے ہیں۔
SEE ALSO: ’امریکن انگلش‘ کیسے وجود میں آئی؟
ہسپینک کنسٹرکشن کونسل کے شریک بانی اور سی ای او جارج کیریلو نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقدام کے بعد حکومت کی جانب سے اطلاعات کی فراہمی محدود ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں پورٹو ریکو جیسے علاقے متاثر ہوں گے جن کی اکثریتی آبادی انگریزی داں نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے تارکین وطن کو انگریزی کی تعلیم و تربیت کے لیے ہونے والے ای سی ایل پروگرام متاثر ہوسکتے ہیں اور ایسے خاندانوں کے لیے صحتِ عامہ یا نظامِ انصاف تک رسائی بھی محدود ہوسکتی ہے جہاں انگریزی سے ناواقف افراد موجود ہیں۔
امریکہ میں ایشیائی ووٹرز کے لیے کام کرنے والی تنظیم اے پی آئی اے ووٹس کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے کئی ایسے افراد کا حقِ رائے دہی متاثر ہوسکتا ہے جو بڑی عمر میں امریکی شہری بنے اور انگریزی سے ناواقف ہیں۔
امریکہ فرسٹ پالیسی
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ انگریزی کو سرکاری زبان بنانا بھی صدر ٹرمپ کی امریکہ فرسٹ پالیسی کا حصہ ہے۔ ان کے بقول وفاقی سطح پر انگریزی قومی زبان بننے سے امیگریشن اور شہریت دینے کا عمل مزید سخت ہوجائے گا اور یہ ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی صدور کے ایجاد کردہ الفاظ اور جملے
صدر ٹرمپ کے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ انگریزی بولنے سے نہ صرف معاشی مواقع کے دروازے کھلتے ہیں بلکہ اس سے یہ نئے آنے والوں کو اپنی کمیونٹیز سے میل ملاپ، قومی روایت کا حصہ بننے اور سوسائٹی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کیوں کہ صدارتی حکم نامے میں کسی وفاقی پروگرام میں کوئی تبدیلی لازمی قرار نہیں دی گئی ہے اس لیے بظاہر یہ ایک علامتی حکم نامہ ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ کے حکم نامے سے ’انگلش اونلی‘ کی تحریک کو تقویت ملے گی جو ایک سے زائد زبانوں میں تعلیم اور امیگریشن پر پابندیوں کے لیے کوشش کرتی آئی ہے۔
صدر کے ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ سرکاری زبان سیکھنا اور اختیار کرنے سے امریکہ سب کا مشترکہ وطن بنے گااور نئے شہری اس سے امریکن ڈریم حاصل کرنے کے قابل بنیں گے۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔