برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر اس وقت ڈرامائی موڑ آیا جب وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اور ایک نیا بل ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا اور خبردار کیا کہ اگر بل مسترد ہوا تو وہ نئے انتخابات کے انعقاد کی کوشش کریں گے۔
تین سال کے دوران دو وزرائے اعظم کی سبکدوشی کے باوجود برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کا معاملہ سیاسی بحران کا شکار ہے۔
برطانوی پارلیمان نے منگل کو حیران کن طور پر یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم، ارکان نے وزیرِ اعظم بورس جانسن کے اُس بل کو مسترد کر دیا جس میں وہ قانون سازی کے تحت یورپی یونین سے علیحدگی چاہتے تھے۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی 31 اکتوبر تک شیڈول ہے۔ تاہم، اس سے قبل وزیرِ اعظم بورس جانسن نئی قانون سازی چاہتے ہیں۔ اُنہیں ایوان میں قانون سازی کی حمایت کے لیے عددی اکثریت بھی حاصل نہیں ہے۔
بورس جانسن کی کوشش ہے کہ 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے انخلا کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن، اُنہیں یورپی یونین سے مزید مذاکرات کے لیے قلیل مدتی تاخیر کا بھی حق حاصل ہے۔
برطانوی پارلیمان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
بریگزٹ ڈیل کے لیے قانون سازی کا بل مسترد ہونے کے بعد برطانیہ کا یورپی یونین سے ہونے والا معاہدہ ختم نہیں ہوا۔ البتہ، مقررہ وقت تک برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔
وزیرِ اعظم بورس جانسن کے پاس اس وقت بھی مختلف آپشنز موجود ہیں جس میں سرفہرست تیکنیکی توسیع شامل ہے۔
1۔ تیکنیکی توسیع
وزیرِ اعظم بورس جانسن یورپی یونین کو خط لکھیں اور درخواست کریں کہ بریگزٹ ڈیل تین ماہ کے لیے یعنی 31 جنوری 2020 تک کے لیے ملتوی کردی جائے۔
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے منگل کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ یورپی یونین کے رہنماؤں سے درخواست کریں گے کہ برطانیہ کے یونین سے علیحدگی کے معاملے میں ایک مرتبہ پھر توسیع کی جائے۔
ڈونلڈ ٹسک کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب برطانوی پارلیمان نے وزیرِ اعظم جانسن کی بریگزٹ ڈیل کے لیے قانون سازی کے بل کو مسترد کردیا ہے۔
اس سے قبل وزیرِ اعظم جانسن نے ہفتے کو یورپی یونین کو ایک خط بھی لکھا تھا جس پر یورپی کونسل کے صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے بورس جانسن کی درخواست قبول کرلی ہے۔
تاہم، انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اس خط میں برطانوی وزیر اعظم نے بریگزٹ میں تاخیر کرنے کا کہا ہے یا نہیں۔
2۔ طویل المدتی تاخیر
وزیرِ اعظم بورس جانسن ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی میں طویل المدتی تاخیر نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود یورپی یونین نے اُنہیں پیش کش کی ہے کہ وہ سوچ بچار کے لیے طویل المدتی تاخیر کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں۔ اپوزیشن ارکان کا مؤقف ہے کہ وزیر اعظم قانونی طور پر مجبور ہیں کہ وہ یورپی یونین کی اس درخواست کو منظور کریں۔
یورپی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو بریگزٹ بحران سے نکلنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے، تاکہ اس مسئلے کو بہتر طریقے سے حل کیا جائے۔
3۔ کسی معاہدے کے بغیر انخلا
فی الوقت قانونی حیثیت یہ ہے کہ اگر یونین کے دیگر 27 ارکان تاخیر پر راضی نہ ہوں تو برطانیہ کو 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔
یورپی یونین کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ وہ برطانیہ کے کسی معاہدے کے بغیر یونین سے علیحدگی میں رکاوٹ نہیں بنیں گے اور بریگزٹ میں تاخیر کرنے کا یونین کا فیصلہ متفقہ ہے۔ تاہم، یونین کے 27 ارکان میں سے کوئی ایک ملک بھی اسے روک سکتا ہے۔
4۔ نئے انتخابات
وزیرِ اعظم بورس جانسن نے منگل کو ہونے والی ووٹنگ سے قبل ارکان پارلیمان کو خبردار کیا تھا کہ اگر پارلیمان نے اُن کے بل کو مسترد کیا تو وہ بریگزٹ ڈیل پر قانون سازی کو واپس لیتے ہوئے عام انتخابات کے انعقاد کی کوشش کریں گے۔
تاہم، پارلیمان میں بل مسترد کیے جانے کے بعد انہوں نے اپنا مذکورہ بیان نہیں دہرایا۔
حکمراں جماعت قبل از وقت انتخابات اور پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کر چکی ہے۔ لیکن، اس میں اُسے ناکامی کا سامنا رہا ہے۔
اس لیے نئے انتخابات کے لیے وزیرِ اعظم بورس جانسن کو حزب اختلاف کی مرکزی جماعت لیبر پارٹی کی حمایت درکار ہے۔ اس وقت تک لیبر پارٹی نے نئے انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کی ہے۔
لیبر پارٹی کا مؤقف ہے کہ وہ اُس وقت نئے انتخابات کی حمایت کریں گے جب یورپی یونین سے کسی معاہدے کے بغیر انخلا کا خوف دور نہیں کیا جاتا۔
5۔ ایک اور ریفرنڈم
حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کا مؤقف ہے کہ کوئی بھی معاہدہ نئے ریفرنڈم کے تحت ہونا چاہیے۔
بریگزٹ معاہدے کے لیے قانون سازی کے موقع پر پارلیمان کے بعض ارکان کی طرف سے نئے ریفرنڈم کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا۔
یاد رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فی صد عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں رائے دی تھی جس پر کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، کیوں کہ وہ خود یونین میں رہنے کے خواہاں تھے۔
بعدازاں، کنزرویٹو پارٹی کی رکن تھریسا مے نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور بریگزٹ معاملے پر ناکامی کی صورت میں انہوں نے بھی عہدے سے استعفیٰ دیا۔