قومی سلامتی کونسل کیا ہے؟

ہر صدر کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی کونسل کو تشکیل دیں اور استعمال کریں۔ کچھ صدور قومی سلامتی کونسل کے لیے بڑی تعداد میں عملے کی تعیناتی کرتے ہیں، جن پر وہ بے انتہا اعتماد کرتے ہیں، جب کہ دیگر مختصر عملہ متعین کرتے ہیں جنھیں وہ کبھی کبھار ہی استعمال کیا جاتا ہے

امریکی صدور کے لیے ’نیشنل سکیورٹی کونسل‘ ایک مشاورتی بورڈ کا کام انجام دیتی ہے، جِس کا تعلق قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے امور سے ہوتا ہے، جسے 1947ء میں تشکیل دیا گیا۔


کونسل کے وہ اجلاس جِن میں صدر شرکت نہیں کرتے، عمومی طور پر نیشنل سکیورٹی مشیر کارروائی کی صدارت کرتا ہے، اور اُنھیں ’کمانڈر اِن چیف‘ کے ثالث کا کام انجام دیتے ہیں۔

مائیکل فِلن پیر کی شام گئے قومی سلامتی مشیر کے عہدے سے مستعفی ہوئے، جس سے قبل یہ اطلاعات عام ہوئیں کہ صدارتی عبوری دور کے دوران، اُنھوں نے روسی سفیر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں انتظامیہ کو مغالطے میں ڈالا۔

صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قائم مقامل قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل کیتھ کیلوگ کو تعینات کیا ہے۔

انتخابی مہم کے بعد اس عہدے پر تعیناتی سے قبل، اُس دوران جب ٹرم قومی سلامتی مشیر کی تعیناتی پر ابھی غور جاری تھا، فِلن یہی کردار ادا کرچکے ہیں۔ اعلیٰ سطح کے ایک سابق فوجی کی حیثیت سے، انتخاب کے دوران وہ ٹرمپ کے ساتھ پختہ کھڑے رہے۔

ہر صدر کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی کونسل کو تشکیل دیں اور استعمال کریں۔ کچھ صدور قومی سلامتی کونسل کے لیے بڑی تعداد میں عملے کی تعیناتی کرتے ہیں، جن پر وہ بے انتہا اعتماد کرتے ہیں، جب کہ دیگر مختصر عملہ متعین کرتے ہیں جنھیں وہ کبھی کبھار ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

جب صدر براک اوباما نے عہدہ سنبھالا تھا، اُنھوں نے وائٹ ہاؤس ہوم لینڈ سکیورٹی کونسل کا عہدہ ختم کر دیا تھا، جسے سابق صدر جارج بش نے 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد تشکیل دیا تھا؛ اور اِس ذمہ داری کو نیشنل سکیورٹی کونسل میں ضم کر دیا۔

اُس وقت، اوباما کے قومی سلامتی کے مشیر، جنرل جیمز ایل جونز نے کہا تھا کہ اِس تبدیلی سے ’’صدر کو اجازت ہوگی کہ وہ بہتر اور تیزی سے فیصلے کر سکیں‘‘۔
جب ٹرمپ نے عہدہ سنبھالا، اُنھوں نے ادارے کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ڈھانچے میں متعدد تبدیلیاں کیں، جو مکمل کونسل کے اعلیٰ ترین ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔

ٹرمپ نے حکمتِ عملی پر مامور سربراہ، اسٹیو بینن کو اجلاسوں میں مستقل شرکت کی اجازت دی؛ اور ’جوائنٹ چیفز آف اسٹاف‘ کے چیرمین اور نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر صرف اُنہی اجلاسوں میں شرکت کریں گے، جب ایسے معاملات سامنے آئیں جن کا اُن سے کوئی تعلق ہو۔


تنازعہ


فِلن گذشتہ ہفتے اُس وقت تنازعے کا شکار بنے جب ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے خبر دی کہ اُنھوں نے روسی سفیر سرگی کیسلیاک سے گفتگو کے دوران روس کے خلاف عائد کردہ تعزیرات پر گفتگو کی، باوجود اِس بات کے کہ وہ بارہا انکار کرتے رہے کہ ایسی کوئی بات چیت ہوئی ہے۔

گفت و شنید نے اِس تشویش کو جنم دیا کہ روسیوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ روس پر اوباما انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی تعزیرات اٹھائے گی۔ اس قسم کی گفتگو کے نتیجے میں ’لوگن ایکٹ‘ کی ممکنہ خلاف ورزی ہوتی ہے، جو غیر متعلقہ شہریوں پر قدغں لگاتی ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے سفارت کاری میں ملوث ہوں۔


اسکینڈل کے نتیجے میں، فِلن مستعفی ہونے والے نیشنل سکیورٹی کے پہلے مشیر نہیں ہیں۔


صدر رونالڈ ریگن کے وقت میں ’ایران کنٹرا افیئر‘ کے ساتھ رابطوں کے الزام پر سزا سنائے جانے پر، دو مشیر سبک دوش کیے گئے تھے، جس میں انتظامیہ کے متعدد اہل کار نکاراگوئا میں ’کنٹراز‘ کے شدت پسند گروپ کو ہتھیار فراہم کرنے کے لیے ایران کو اسلحے کی فروخت میں مالی منفعت کی نوعیت کی بے ضابطگی میں ملوث پائے گئے تھے۔


رابرٹ مک فارلن نے بطور نیشنل سکیورٹی مشیر کے دو برس سے زیادہ عرصے تک خدمات انجام دی تھیں۔ اُنھوں نے 1985ء میں استعفیٰ دیا، جس کا سبب ذاتی وجوہات بیان کی گئی۔ بعدازاں، اُنھوں نے کانگریس سے حقائق چھپانے کا جرم قبول کیا، تاکہ ہتھیاروں کی فروخت کے معاملے پر پردہ ڈالا جا سکے۔


اُن کی جگہ لینے والے، جان پونڈیکسٹر نے بھی ’ایران کنٹرا افیئر‘ میں کردار ادا کیا، اور 1968ء میں ایک سال خدمات انجام دینے کے بعد مستعفی ہوگئے۔ بعدازاں، اُنھیں اِس اسکینڈل میں ملوث پایا گیا۔ لیکن، فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور الزامات واپس لیے گئے۔