|
نئی دہلی — بھارت کی ریاست منی پور میں مشتعل مظاہرین نے کئی اضلاع میں متعدد ارکانِ اسمبلی کے گھروں پر حملے کرکے انہیں نذر آتش کر دیا۔ ریاستی وزیرِ اعلیٰ این بیرن سنگھ کے آبائی مکان پر حملے کی کوشش کو سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا ہے۔
آسام رائفلز، بارڈر سیکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) اور ریاستی پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ بولیٹ فائر کرکے انہیں منتشر کیا۔
اس کے بعد مظاہرین نے وزیرِ اعلیٰ کے گھر کی طرف جانے والی سڑک پر ٹائر جلائے۔
جیری بام ضلعے میں چھ خواتین اور چھ بچوں کی لاشیں ملنے کے بعد مظاہرین میں غصہ پھوٹ پڑا۔ ان کا الزام ہے کہ ان ہلاکتوں کے ذمہ دار عسکریت پسند ہیں۔
انتظامیہ نے ہفتے کو یہ لاشیں دریافت کی تھیں۔ ہلاک شدگان کو مبینہ طور پر عسکریت پسندوں نے اغوا کیا اور قتل کر دیا تھا۔ اس واردات کے بعد مشتعل مظاہرین نے کم از کم 10 ارکانِ اسمبلی کے گھروں کو نشانہ بنایا ہے۔
سرکاری اہل کاروں کے مطابق ہفتے کی شب جن ارکانِ اسمبلی کے گھروں پر حملہ کیا گیا ان میں تین کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ایک کا تعلق کانگریس سے ہے۔
ان میں وزیرِ اعلیٰ کے برادر نسبتی اور دو وزرا کے گھر بھی شامل ہیں۔
حالات کی سنگینی کے پیش نظر مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے مہاراشٹرا میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے اپنی ریلیوں کو منسوخ کر دیا ہے اور وہ دارالحکومت دہلی لوٹ آئے ہیں۔
وزیرِ داخلہ نے منی پور کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔ مہاراشٹر میں 20 نومبر کو اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔
ادھر امپھال وادی کے پانچ اضلاع میں پہلے سے ہی غیر معینہ مدت کا کرفیو نافذ ہے اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئی ہیں۔
بھارتی ریاست منی پور میں فسادات سے متعلق مزید جانیے
بھارت: منی پور میں میتی اور کوکی کمیونٹیز کے درمیان اختلاف کیا ہے؟ ریاست منی پور کے فسادات میں غیر ملکی دہشت گرد ملوث ہیں: بھارتی ایجنسیمنی پور فسادات: اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ پر بھارت ناراضبھارتی سپریم کورٹ: 'منی پور واقعہ سے نظریں نہیں چرا سکتے'بھارت: منی پور میں نسلی فسادات جاری، امریکہ کا اظہارِ تشویشسیکیورٹی فورسز نے متاثرہ علاقوں میں اپنی گشت بڑھا دیا ہے جب کہ جن ارکانِ اسمبلی کے گھروں پر حملے کیے گئے ہیں ان کے لیے اضافی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ بی جے پی ہیڈ کوارٹرز اور سیکریٹریٹ کی جانب جانے والی سڑکوں پر بھی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مرکزی سیکیورٹی فورسز کی ایک ٹیم حالات کاجائزہ لینے اور ریاستی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے منی پور کا دورہ کرنے والی ہے۔
سول سوسائٹی گروپوں نے دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے انتظامیہ کو 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ ’سینٹرل ریزرو پولیس فورس‘ (سی آر پی ایف) کے ڈائرکٹر جنرل انیش دیال حالات کا جائزہ لینے کے لیے امپھال پہنچ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ 12 نومبر کو جیری بام ضلعے میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مڈبھیڑ میں 10 مشتبہ کوکی عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک سیکیورٹی جوان ہلاک ہوا تھا۔ جیری بام ضلع کی سرحد آسام سے ملی ہوئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق عسکریت پسندوں کی جانب سے ایک مکان کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس میں سے دو معمر افراد کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جیری بام میں ایک پولیس اسٹیشن پر عسکریت پسندوں کی طرف سے دو جانب سے حملے کے بعد یہ مڈبھیڑ ہوئی تھی۔
پولیس اسٹیشن کے پاس بے گھر بار ہوئے افراد کے لیے ایک ریلیف کیمپ قائم ہے۔ ذرائع کے مطابق حملہ آور شاید کیمپ کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔
ایک پولیس اہل کار نے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کو بتایا کہ حملہ آور ایک آٹو رکشا پر آئے تھے۔ حالیہ مہینوں میں اس پولیس اسٹیشن پر متعدد مرتبہ حملے ہو چکے ہیں۔
انکاونٹر کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ہتھیار برآمد کیے تھے جب کہ کوکی سول سوسائٹی نے ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں میں ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال مئی میں میدانی علاقوں میں آباد ہندوؤں کی میتی برادری اور پہاڑوں پر آباد مسیحی کوکی برادری کے درمیان نسلی فساد پھوٹ پڑا تھا۔ جس میں اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک اور 60 ہزار سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔