ویڈیو گیمز کی مدد سے طلبہ کو تاریخ کا مضمون پڑھانے کی کوشش

کرونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران جب لوگ اکثر گھروں میں مقید تھے تو 2020 میں دنیا بھر میں ویڈیو گیمز کی فروخت 180 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔

کسی کلاس کے طلبہ سے پوچھا جائے کہ انہیں کون سا مضمون سب سے زیادہ اکتاہٹ میں مبتلا کرنے والا اورخشک معلوم ہوتا ہے، تو شائد آدھی سے زیادہ کلاس ایک ایسے مضمون کا نام لے گی جس کا تعلق اس ملک کے سیاسی اور سماجی حالات و واقعات اور گزرے ہوئے کل سے ہوتا ہے۔

تاریخ کے مضمون کو دلچسپ بنانے کا ہنر سکھانے کے خواہش مند ایک امریکی استاد کا خیال ہے کہ اس مضمون میں نوجوانوں کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ویڈیو گیمز کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔

امریکہ میں دو تہائی بالغ افراد مختلف طرح کی ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران جب اکثر لوگ گھروں میں مقید تھے، تو 2020 میں دنیا بھر میں ویڈیو گیمز کی فروخت 180 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔

یونیورسٹی آف ٹیکساس کے آسٹن کالج آف لبرل آرٹس میں تاریخ کا مضمون پڑھانے والے استاد ایڈم کلولو کا کہنا ہے کہ ویڈیو گیمز سے طلبہ کو تاریخ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ان کے بقول جب بھی وہ اپنی کلاس میں طلبہ سے پوچھتے ہیں کہ کون کون ویڈیو گیمز کھیلتا ہے تو تقریباً سب ہی اپنا ہاتھ اٹھا کر اثبات میں جواب دیتے ہیں۔

ایڈم کلولو کا کہنا ہے کہ کسی بھی عمرانی علوم کی کلاس میں ویڈیو گیمز ڈیزائن کرنے کی اسائمنٹ سے نہ صرف انوکھی بات کی جا سکتی ہے، بلکہ طلبہ کو سیکھنے کے نئے مواقع ملتے ہیں اور نیا معلوماتی مواد بڑے پیمانے پر پھیلایا جا سکتا ہے۔

SEE ALSO: 'پب جی' موبائل پر ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر گئی

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ایسی ویڈیو گیمز تیار کی ہیں، جو طلبہ کو مضمون کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک گیم 'اسٹار مکینک' ہے۔ اس گیم کے ذریعے بارھویں کلاس کے طلبا کو بنیادی کوڈنگ سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔

ایڈم کلولو کی یونیورسٹی نے ایسے مضامین متعارف کرائے ہیں، جو مستقبل کے سافٹ ویئر ڈویلپرز کی تربیت کرتے ہیں۔

ایڈم کلولو مشرقی ایشیائی دنیا کی تاریخ پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں جاپانی تاریخ پر بہت سی ویڈیو گیمز موجود ہیں، وہیں ان میں بہت سے روایتی خیالات بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ ان خیالات کا کسی جاپانی سیمورائی (کسی سردار کا ملازم سپاہی) کی عام زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ان کے مطابق انہوں نے 2020 میں اپنے انڈر گریجوئیٹ طلبہ کو کہا تھا کہ وہ ایسی ویڈیو گیمز بنائیں، جو جاپانی تاریخ کے متنازع مراحل سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرتی ہوں۔

Your browser doesn’t support HTML5

تھری ڈی گیم کیوب: 'کمپیوٹر اور کھلونے کا امتزاج‘

ان کے طلبہ نے 2020 میں ایک ویڈیو گیم بنائی جس کا نام (Echo: A tale of Loyalty) ’’ایکو: اے ٹیل آف لوئیلٹی‘‘ تھا، جو ایک ایسے جاپانی سیمورائی جنگجو کے گرد گھومتی ہے جسے 1701 کے زمانے میں مشکل فیصلے کرنے تھے۔

اس گیم کے ذریعے کھیلنے والا اس وقت کے جاپان کے بارے میں مفید معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

ایڈم کلولو کا کہنا ہے کہ ایک تو وہ روایتی نظام تعلیم سے ہٹ کر، جس میں طلبہ کو کسی بھی موضوع سے متعلق طویل مضمون لکھنے کو کہا جاتا ہے، نئے انداز میں طلبہ کو سیکھنے کی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے ان کا خیال ہے کہ پروفیسرز کو ویڈیو گیمز کی دنیا سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ان کے کہنا تھا کہ وہ ایسی ویڈیو گیمز تو نہیں بنا سکتے جو پروفیشنل اسٹوڈیوز میں بنائی جاتی ہیں، لیکن ایسی گیمز ضرور بنا سکتے ہیں، جو کالج یونیورسٹیوں میں تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

ایڈم کلوکو کے مطابق روایتی نصابی مضمون تو ایک پروفیسر کے پڑھنے کے لیے ہوتا ہے، لیکن طلبہ کی جانب سے بنائی گئی ایسی گیم کو ہزاروں دیگر طلبہ، کئی اداروں میں کھیل سکتے ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔