حکومت عسکری قیادت کے تحفظات دور کرے: قائد حزب اختلاف

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ (فائل)

آصف غفور نے کہا تھا کہ ملک کی سکیورٹی اور معیشت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور اگر ملک کی سکیورٹی بہتر ہو گی تو اس کا ملک کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت کو فوج کے سربراہ کے ملکی معیشت سے متعلق اٹھائے گئے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ان کے بقول اگر ملک کی معیشت کمزور ہوگی تو وہ فوج کو بھی کمزور کردے گی۔

واضح رہے کہ پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ یعنی آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے جمعے کو ایک نجی ٹی وی چینل 'دنیا نیوز' پر ملک کی اقتصادی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی معیشت اس وقت اگر بری نہیں ہے تو ان کے بقول بہت اچھی بھی نہیں ہے اور اسےبہتر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

آصف غفور نے کہا تھا کہ ملک کی سکیورٹی اور معیشت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور اگر ملک کی سکیورٹی بہتر ہو گی تو اس کا ملک کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔

وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے جو آج کل امریکہ کے دورے پر ہیں، فوجی ترجمان کے بیان پر اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کو ملک کی معیشت پر بیان دینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ان کے بقول ملکی معیشت سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں۔

تاہم ہفتے کو راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس میں میجر جنرل آصف غفور نے احسن اقبال کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جو کچھ کہا وہ اس پر قائم ہیں اور انھوں نے یہ بات آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کہی۔

رواں ہفتے پاکستانی فوجی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ ملک میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے میں ترقی ضرور ہوئی لیکن ان کے بقول ملک کے معاشی خسارے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جو قومی معیشت کے لیے بہتر نہیں ہے۔

قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے ہفتے کو سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک کی معیشت سے متعلق جنرل باجوہ کے کچھ تحفظات ہیں تو ان کے بقول حکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں دور کرے۔

" اگر ملک کی معشیت بہتر ہو گی تو ملک کا دفاع مضبوط ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کو ملک کی معشیت کے بارے میں بریفنگ دیں اور انہیں جواب دیں کہ ایسی بات نہیں ہے۔ کمزور قوم، کمزور معیشت ہماری فوج کو بھی کمزور کر دے گی۔"

تاہم قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا افضل نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ ملک کی معیشت بہتری کی راہ پر گامزن نہیں ہے۔

ان کے بقول گزشتہ چار برسوں کے دوران غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے آٹھ ارب ڈالر سے بڑھ کر 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔

ہفتے کو فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر افراطِ زر کی شرح قابو میں ہے اور ٹیکس دھندگان کی تعداد پونے آٹھ لاکھ سے بڑھ کر 14 لاکھ ہو چکی ہے۔

رانا افضل کا کہنا تھا کہ اگر آج کسی کو معیشت کمزور نظر آرہی ہے تو وہ یہ دیکھے کہ چار سال قبل کیا تھا۔ اس وقت یہ کہا جارہا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں آرمی چیف کے لیے (معیشت کے بارے میں) بات کرنے کا مناسب فورم قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس ہے۔

دوسری طرف بعض مبصرین ان بیانات کو سول اور فوج کے درمیان تناؤ کا مظہر قرار دے رہے ہیں۔

تجزیہ کار طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تحفظات کا اظہار مناسب فورم پر ہونا چاہیے اور ان کے بقول ایسے بیانات کسی طور سود مند نہیں ہیں۔

"اس وقت جو سول اور فوجی قیادت میں تناؤ ہے یہ اس وجہ سے کہ جو اس وقت نواز شریف کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں اور جس طریقے سے نواز شریف کی پارٹی ایک لحاظ سے عدلیہ اور فوج کے خلاف زبانی جنگ میں ملوث ہے اور جس طرح کی باتیں وہ کر رہے ہیں اس کی وجہ سے تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔"

طلعت مسعود نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے اور ان کے بقول سول اور فوجی عہدیداروں کو ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے جس سے یہ تاثر ملے کی سول اور فوجی قیادت میں کوئی اختلاف ہے۔