بھارت: اُترپردیش میں شادی کے ذریعے مذہب کی 'جبراً' تبدیلی جرم قرار

فائل فوٹو

بھارت کی ریاست اُتر پردیش کی حکومت نے زبردستی مذہب کی تبدیلی یا شادی کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کو جرم قرار دے دیا ہے۔

نئے قانون کے تحت مختلف مذاہب کے جوڑوں کو شادی سے قبل ضلعی مجسٹریٹ کو دو ماہ قبل نوٹس دینا پڑے گا۔ اگر کوئی اعتراض نہ ہوا تو انہیں شادی کی اجازت دی جائے گی۔

جبری طور پر مذہب کی تبدیلی ریاست کے قانون کے تحت قابل تعزیر ہو گی اور ایسا کرنے والے فرد کو جیل بھیج دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ حال ہی میں بھارت کی پانچ ریاستوں کی حکومتوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ 'لو جہاد' کے خلاف قانون وضع کرنے جا رہی ہیں۔ اِن پانچوں ریاستوں میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق 'لو جہاد' ایک اصطلاح ہے جس کا اختراع دائیں بازو کی ہندوتوا نواز جماعتوں نے ہندو خواتین کی مسلم مردوں سے ہونے والی شادی کے بارے میں کیا ہے۔

'لو جہاد' کی اصطلاح کا پرچار کرنے والے الزام عائد کرتے ہوئے مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر اُن کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور پھر اُن سے شادی کرلیتے ہیں۔

ریاست اترپردیش کی حکومت کے نئے قانون کے تحت یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد کے عقیدے کو تبدیل یا شادی کے ذریعے تبدیلیٔ مذہب پر مجبور نہیں کر سکتا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اتر پردیش میں بین المذاہب شادیوں سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں۔ اتر پردیش پہلی ریاست ہے جہاں اس طرح کی قانون سازی کی گئی ہے۔

ریاستی کابینہ کے رکن سدھارتھ ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تبدیلی مذہب کو روکنے اور ان سے متاثرہ خواتین کو انصاف فراہم کرنے کی غرض سے پانچ سال تک قید کی سزا ضروری ہے۔

بھارتی قانون میں بین المذاہب شادیوں پر کوئی پابندی نہیں لیکن چند ریاستوں نے بین المذاہب شادیوں کو غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔

جن ریاستوں نے 'لو جہاد' کے خلاف قانون وضع کرنے کا عندیہ دیا تھا ان ریاستوں میں اترپردیش کے علاوہ مدھیہ پردیش، ہریانہ، کرناٹک اور آسام شامل ہیں۔

ان ریاستوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ 'لو جہاد' کے خلاف قانون لائیں گی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

اترپردیش میں حکم نامے کا اجرا اس حوالے سے اٹھایا گیا پہلا اقدام ہے جب کہ اس سے قبل ریاست میں کئی عدالتی معاملات بھی سامنے آچکے ہیں جن میں بین المذاہب شادیوں کو مسترد کیا جاچکا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایک جوڑے کے تحفظ کی غرض سے دائر درخواست کو مسترد کرنے کا معاملہ اس کی بڑی مثال ہے۔

محبت کی شادی کرنے والے جوڑے نے عدالت سے تحفظ کی اپیل کی تھی اور کہا گیا تھا کہ انہیں اُن کے اہل خانہ سے بچایا جائے۔ اس کیس میں ایک ہندو لڑکی نے اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان لڑکے سے شادی کی تھی تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

لڑکی کے والدین نے اپنی بیٹی کا جبراً مذہب تبدیل کرانے کا الزام عائد کیا تھا۔