امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز نیٹ ورک کے تازہ ترین سروے کے مطابق نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔
توقع ہے کہ کرونا وائرس کا زور ٹوٹنے کے بعد امریکہ میں صدارتی انتخابی مہم تیزی سے زور پکڑے گی جس پر اس وقت توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم اخبار واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز نیٹ ورک نے ایک تازہ سروے کیا ہے، جس میں دونوں ممکنہ امیدواروں کے بارے میں رائے عامہ تقریباً برابر بٹی ہوئی ہے۔
مجموعی طور عام بالغوں کی 50 فی صد تعداد بائیڈن کے حق میں ہے، جب کہ 44 فی صد ٹرمپ کے حق میں۔
الگ الگ پوچھے جانے والے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ اگر آج انتخاب ہوتے ہیں تو آپ کس کو ووٹ دیں گے۔ اس کے جواب میں 49 فی صد بائیڈن کے حق میں جب کہ 47 فی صد ووٹ ٹرمپ کے حق میں آئے۔
سروے میں 55 فی صد افراد کا کہنا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو سپورٹ کرنے کے لیے بہت پر جوش ہیں۔ جبکہ 32 فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ سے منتخب کرنے کے لیے پر جوش ہیں۔
امریکہ کے سابق نائب صدر بائیڈن کے بارے میں 28 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پرجوش ہیں۔ جبکہ 46 فی صد امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی حد تک بائیڈن کو منتخب کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔
معاشی معاملات کے بارے میں ٹرمپ کی طرف جھکاؤ زیادہ تھا، جب کہ صحت عامہ کے سلسلے میں بائیڈن کی طرف۔
سروے میں معیشت سے متعلق پوچھے گئے سوال پر 52 فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ معیشت کو سنبھالنے کے اعتبار سے زیادہ قابل بھروسہ ہیں۔ جبکہ 42 فی صد افراد سمجھتے ہیں کہ بائیڈن معیشت کے معاملات سنبھالنے میں زیادہ بھروسہ مند ہیں۔
سروے میں صحت عامہ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بائیڈن کو ٹرمپ کے مقابلے میں 10 پوائنٹس کی برتری حاصل رہی۔
کرونا وائرس کے خلاف جنگ کے بارے میں دونوں کے درمیان فرق بے حد کم تھا۔ ٹرمپ کو 47 فی صد اور بائیڈن کو 43 فی صد ووٹ ملے۔
ابھی تک ڈیموکریٹک پارٹی نے باقاعدہ طور پر اپنا صدارتی امیدوار نامزد نہیں کیا ہے اور پارٹی کے ایک اور اہم امیدوار برنی سینڈرز ابھی تک دست بردار نہیں ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: امریکی صدارتی انتخابی مہم پر کرونا وائرس کے اثراتواشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی کا سروے ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں سب سے زیادہ ملازمتوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔جب کہ دوسری طرف کرونا وائرس کی وجہ سے امریکہ میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں اور رواں سال ہونے والی صدارتی انتخابات سے پہلے سیاسی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔
یہ سروے لینڈ لائنز اور موبائل فونز کے ذریعے رواں ہفتے 22 مارچ سے 25 مارچ کے دوران منعقد کیا گیا۔ جس میں 1003 بالغ افراد سے ان کی رائے معلوم کی گئی۔