طالب علموں کو تنگ کرنے کے واقعات کی روک تھام کے اقدامات

طالب علموں کو تنگ کرنے کے واقعات کی روک تھام کے اقدامات

پاکستان اور دوسری کئی ترقی پذیر ملکوں کی طرح امریکی اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں ایسے طالب علم موجود ہیں جن کامشغلہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو تنگ کرنا اور ڈرانا دھمکانا ہوتاہے۔ اسے یہاں بالعموم bullying کہا جاتا ہے۔ یہاں اب کئی افراد دوسروں کو ستانے کے لیے ٹکنالوجی سے بھی کام کررہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اس رجحان کی روک تھام اور bullying کرنے والے افراد اور گروپوں کی حوصلہ شکنی کے لیے کئی اقدامات کررہی ہے۔

گذشتہ کچھ عرصے سکولوں اور کالجوں میں اپنے ساتھیوں کو ڈرانے دھمکانے اور تنگ کرنے کےلیے بعض طالب علم ٹکنالوجی کی مدد سے بھی مدد لے رہے ہیں اور ا ن کا یہ رویہ دوسرے طالب علموں کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے امریکی تعلیمی اداروں میں ہر سطح پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔

ستمبر 2010 میں ریاست نیوجرسی کی ایک یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اپنے ساتھیوں کے رویے سے تنگ آ کر خودکشی کرلی تھی۔ اس کی عمر صرف 18سال تھی۔

محکمہ تعلیم کے ایک عہدے دار کیون جینگز کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ کافی عرصے تک خبروں میں نمایاں رہا اور لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ اس قسم کے رویے کو ہرگز برداشت نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے جانیں بھی جاسکتی ہیں۔

اکتوبر میں محکمہ تعلیم نے سکولوں کی انتظامیہ کو ایک خط کےذریعے واضح کیا کہ تعلیمی اداروں کے کمپس پر ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جانےضروری ہیں۔

کیون جینگز کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں Bullying کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ کسی خا ص سکول یا علاقے تک محدود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ اس سال ہر تین میں سے کم از کم ایک طالب علم ایسے رویے کا سامنا ہوگا اور تین میں سے چار طالب علم یا تو یہ واقعات دیکھیں گے، یاان میں شامل ہوں گے، یا وہ خود اس کا نشانہ بنیں گے ۔ یہ ہمارے سکولوں کاایک بڑا مسئلہ ہے۔

کیون جینگز کہتے ہیں کہ طالب علموں کو اس عادت سے باز رہنے کی تربیت ابتدائی درجوں سے ہی شروع کی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ اور امریکہ میں ہم پبلک سکول کو ایک ایسی جگہ خیال کرتے ہیں جہاں بچے دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھتے ہیں ۔ مختلف ثقافتوں پر مبنی جمہوریت اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے اگر اس کے شہری مختلف تہذیبوں اور روایتوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکیں۔ اگر ہم طالب علموں کو ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے سے نہیں روک سکتے تو پھر ہم ایک مہذب جمہوری معاشرہ بنا نے کی توقع کیسے کرسکتے ہیں۔

کئی امریکی سکول bullying کی روک تھام کےلیے اساتذہ کی تربیت سمیت متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں۔ واشنگٹن میں واقع ای ایل ہینز پبلک چارٹر سکول میں اس رویے کے خلاف تریبت دی جارہی ہے۔

پرنسپل مشیل کاکہنا ہے کہ منفی رویوں کی نشاندہی ہونے پر ہم طلبہ، والدین اور اساتذہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ایسے واقعات کی وجوہات کی جڑ تک پہنچ کراس کا حل نکالیں اور طالب علموں کو اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنے میں مدد کریں ۔ انہیں اپنے مسائل بیان کرنے کے لیے الفاظ سکھائے جائیں یا اگر وہ دوسرے طلبہ کے ساتھ غلط رویہ اختیار کر رہے ہیں تو دوست بنانے میں ان کی مدد کی جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ سکول میں طالب علموں کو نقصان دہ رویوں کے بارے میں صرف بتایا جاتا ہے بلکہ انہیں مثالوں کے ذریعے درست اور غلط رویوں میں فرق کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔

مشیل مولیٹورکہتی ہیں کہ ان کے سکول میں بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ ایسی صورت حال میں اساتذہ سے رجوع کر سکتے ہیں، اور ان مسائل کے حل کے لیے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے ۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس عادت پر مکمل طورپر قابو پانے کی کوششیں صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہیں جب والدین بھی اس عمل کا حصہ بنیں۔