حالانکہ اسامہ بن لادن کے بیٹے اور القاعدہ کے بانی کے وارث خیال کیے جانے والے دہشت گرد کی ہلاکت کی خبریں آ چکی ہیں، امریکی اہلکاروں نے خبردار کیا ہے کہ عالمی دہشت گرد گروپ اب بھی امریکہ کے لیے کلیدی خطرے کا باعث ہے۔
حکام نے حمزہ بن لادن کی ہلاکت کی تصدیق سے انکار کیا ہے، جن کے لیے بتایا جاتا ہے کہ انھیں گذشتہ دو برسوں کے دوران کی گئی کارروائی میں ہلاک کیا گیا، جس میں امریکہ شریک تھا۔ لیکن، حکام نے جمعرات کو متنبہ کیا کہ جو بھی صورت ہو، القاعدہ کے بارے میں غلط اندازہ نہیں لگایا جانا چاہیے۔
ایک بریفنگ کے دوران، امریکی محکمہ خارجہ کے انسداد دہشت گردی کے رابطہ کار، سفیر نیتھن اے سیلز نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’جس بات سے آج ہمیں واسطہ ہے وہ یہ کہ القاعدہ اتنی ہی مضبوط ہے جتنی یہ کبھی تھی‘‘۔ بریفنگ کا مقصد دہشت گرد گروپ کی حریف دولت اسلامیہ کا موازنہ کرنا تھا، جسے داعش بھی کہا جاتا ہے۔
سیلز نے کہا کہ ’’القاعدہ نے گذشتہ چند برسوں کے دوران حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ وہ چپ ہے۔ خاموشی سے وہ تشکیل نو پر دھیان دے رہی ہے، جس دوران اس نے داعش کو کھلا میدان دے رکھا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کی عالمی کوششوں کا سامنا کرے‘‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’بلاشک وہ اس لڑائی میں شریک ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان سے اپنی لڑائی جاری رکھیں‘‘۔
القاعدہ کے بارے میں امریکہ کا اندازہ وہی ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے، جس میں اس دہشت گرد گروپ کو ’’اپنی شکل میں موجود‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں دولت اسلامیہ کے لیے ’داعش‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے، کہا گیا ہے کہ ’’ادلب، عرب جمہوریہ شام، یمن، صومالیہ اور مغربی افریقہ کے زیادہ تر علاقوں میں القاعدہ سے منسلک گروہ دولت اسلامیہ سے مماثلت رکھنے والے گروہوں سے زیادہ مضبوط ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کی طرح، سیلز نے الشباب سمیت القاعدہ سے منسلک دھڑوں کو ’’متحرک اور مہلک‘‘ قرار دیا ہے؛ جو صومالیہ اور کینیا میں سرگرم عمل ہیں، ساتھ ہی اسلامی مغرب کی القاعدہ اور یمن میں سرگرم جزیرہ نما خطے کی القاعدہ شامل ہے۔
خاص طور پر جزیرہ نما عربستان کی القاعدہ کے لیے امریکی حکام نے بارہا کہا ہے کہ بم تشکیل دینے کی صلاحیتوں کے حوالے سے اور امریکہ کو نشانہ بنانے کی خواہش کے اعتبار سے شاید وہ القاعدہ کے تمام دھڑوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے۔
سیلز نے کہا کہ ’’القاعدہ کی جانب سے کسی قدر چپ سادھ لینے کا کوئی یہ مطلب ہرگز نہ سمجھے یا یہ عندیہ نہ لے کہ وہ (دہشت گردی کا) کاروبار ترک کر چکی ہے‘‘۔
تاہم، انسداد دہشت گردی کے چند تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ القاعدہ کی طویل عرصے کی منصوبہ بندی اور نسبتاً زیادہ طاقت کے باوجود، اگر یہ تصدیق ہوجاتی ہے کہ اس کا رہنما، حمزہ بن لادن ہلاک ہو چکا ہے تو یہ بات القاعدہ کے لیے کاری ضرب کا باعث بنے گی۔
کیتھرین زمرمن ’کرٹیکل تھریٹس پراجیکٹ‘ میں تحقیق کی سربراہ ہیں۔ بقول ان کے، ’’خاص طور پر اسامہ بن لادن کے بیٹے کی حیثیت سے، حمزہ کی ہلاکت اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ وہ عالمی جہاد کے لیے ایک طاقتور آواز بن سکتی تھی۔ اپنے والد کی وراثت سنبھالنے کے لیے حمزہ پر تول رہا تھا‘‘۔
ساتھ ہی، زمرمن اور دیگر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ القاعدہ کی قیادت پھر سے طاقت پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس ثبوت کے باوجود کے اس کے موجودہ رہنما ایمن الظواہری کی صحت بگڑ رہی ہے۔
بدھ کو جب ’این بی سی نیوز‘ نے خبر دی کہ امریکی اہلکاروں اور انٹیلی جنس نے بتایا ہے کہ حمزہ بن لادن ہلاک ہو چکا ہے، تو القاعدہ کے کمزور ہونے کا گمان ہونے لگا۔
اخباری نمائندوں نے وائٹ ہاؤس کے لان پر جمعرات کے روز جب امریکی صدر سے سوال کیا، تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ حمزہ بن لادن ہلاک ہوگیا ہے یا یہ کہ ان کی ہلاکت میں امریکہ کا کوئی ممکنہ کردار تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں یہ کہوں گا کہ حمزہ بن لادن ہمارے ملک کے لیے انتہائی خطرناک تھا، جس کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ لیکن جہاں تک اس کے علاوہ کوئی بات ہے، تو اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا‘‘۔