|
بائیڈن انتظامیہ نے ایران سے آنے والی ان رپورٹوں پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پولیس نے گزشتہ ماہ دو بچوں کی ماں کو اس کی کار میں گولی مار کر اسے جزوی طور پر مفلوج کر دیا، جس کی بظاہر وجہ لازمی حجاب پہننے سےانکار تھا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے یہ تبصرہ اتوار کو وائس آف امریکہ کو خصوصی طور پر بھیجے گئے ایک بیان میں کیا جس میں کہا گیا "یہ رپورٹس بدقسمتی سے، ایرانی حکومت کی طرف سے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صنفی بنیاد پر تشدد کے ہولناک استعمال سے مطابقت میں ہیں۔"
انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے کہ 31 سالہ آرزو بدری 22 جولائی کو شمالی ایران کے صوبہ مازندران میں اس کے بعد جزوی طور پر مفلوج ہوگئی تھیں جب کار چلانے کے دوران پولیس نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔ وہ اپنی بہن کے ہمراہ تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ کہ بدری پر فائرنگ سے ظاہر ہوتا ہےکہ (ایرانی) حکومت نے امینی کے المناک اور بےحسی پر مبنی قتل کے بعد کے دو برسوں میں کچھ نہیں سیکھا ... اور یہ کہ حکومت کا خواتین اور لڑکیوں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن مسلسل جاری ہے ۔"
ایران کے سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ پولیس نے بدری کی گاڑی پر اس لئے فائرنگ کی تھی کیونکہ اس نے روکنے کے احکامات کو نظر انداز کیا تھا۔
سر گرم کارکنوں نے ایرانی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ پولیس نے بدری پر اس لیے گولی چلائی کیوں کہ گاڑی میں حجاب پہننے سے ان کے انکار پر اس کی گاڑی ضبط کرنے کا حکمدیا گیا تھا۔
SEE ALSO: ایران۔ ڈریس کوڈ کے نئے قانون پرعمل نہ کرنےوالی خواتین کے لیے دس برس تک قید کی سزاایرانی حکام نے رواں سال اس اسلامی قانون پر عمل درآمد کو سخت کر دیا ہے جس کے تحت خواتین اور لڑکیوں کو عوامی مقامات پر، یہاں تک کہ گاڑی کے اندر بھی اپنے بالوں کو حجاب سے ڈھانپنےکا تقاضا کیا گیا ہے۔
اس قانون پر عمل درآمد سے متعلق ایران کی اخلاقیات کے امور سے متعلق پولیس نے ستمبر 2022 میں ایک اور نوجوان خاتون مہسا امینی کو حراست میں لیا اور اس پر حملہ کیا تھا، جس کی حراست میں موت نے ایران کے آمرانہ اسلام پسند حکمرانوں کے خلاف مہینوں کے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا تھا۔
ایرانی عدلیہ کے ایک ترجمان نے 20 اگست کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ گولی چلانے والا زیر حراست اور زیر تفتیش ہے لیکن اس نے اس واقعے میں حجاب کے مینڈیٹ کے نفاذ سے کسی تعلق سے انکار کیا۔
ایرانی حکومت نے گزشتہ ہفتے بدری کی شوٹنگ پر غم و غصے کو محدود کرنے کی کوشش کی۔
ایران کی سرکاری نیوز سائٹ تسنیم نے 19 اگست کو ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں بدری کو تہران میں اسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تسنیم کی ویڈیو میں، ایک نامہ نگار بستر پر لیٹی بدری سے مائیکروفون پر پوچھتی ہیں کہ کیا وہ بہتر محسوس کر رہی ہے اور ٹھیک ٹھاک کھا رہی ہیں ، اور وہ کئی مختصر جوابات اثبات میں دیتی ہیں۔ بستر کے پاس کھڑے ان کے والد بھی نامہ نگار کو بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹی بہتر محسوس کر رہی ہیں۔
ایرانی خواتین کے حقوق کی کارکن اور VOA فارسی ٹی وی کی میزبان مسیح علی نجاد نے شوٹنگ کے بعد اسپتال میں داخل بدری کی پہلی سوشل میڈیا تصاویر اور ویڈیو شائع کی تھیں، جن میں علی نجاد نے کہا کہ انہوں نے انہیں ایک باخبر ذریعے سے حاصل کیا ہے۔
جمعہ کو شائع ہونے والے VOA کے فلیش پوائنٹ پوڈ کاسٹ کے لیے ایک انٹرویو میں، علی نجاد نے کہا کہ بدری اور ان کے والد کی تسنیم کے لیے ویڈیو ایرانی حکام نے زبردستی بنائی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی حکام کوشش کررہے ہیں کہ حجاب سے متعلق تنازعات اور مظاہروں کو پھوٹنے سے روکا جائے کیونکہ ایران میں اگلے ماہ مہسا امینی کی موت کی دوسری برسی ہونےوالی ہے ۔
جب سے علی نجاد نے 29 جولائی کو سوشل میڈیا پر تصاویر اور کیس کے بارے میں معلومات پوسٹ کرنا شروع کی ہیں وی او اے نے ایران سے بدری پر فائرنگ سے متعلق سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کی کوئی رپورٹ نہیں دیکھی۔
وائس آف امریکہ نیوزکی رپورٹ۔