پناہ گزینوں سے متعلق ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ممکن ہو۔
امریکی نائب معاون وزیرِ خارجہ برائے مردم شماری، پناہ گزین و تارکینِ وطن نینسی ایزو جیکسن نے رواں ہفتے پاکستان کا دورہ مکمل کیا۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جمعرات کی شام جاری ایک بیان کے مطابق نینسی ایزو جیکسن نے اپنے دورے کے دوران حکومتِ پاکستان پر زور دیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر ایسے منصوبے پر کام کرے جو افغان پناہ گزینوں کی رضاکارانہ، مستقل اور باعزت واپسی میں معاون ثابت ہو۔
بیان کے مطابق نینسی ایزو جیکسن نے دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین آبادیوں میں سے ایک آبادی کی لگ بھگ چالیس سال تک میزبانی کرنے پر پاکستان کی سخاوت کا بھی اعتراف کیا۔
سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 2002ء کے بعد سے امریکہ نے یو این ایچ سی آر اور دیگر اشتراک کاروں کے توسط سے دو ارب 90 کروڑ ڈالر افغان پناہ گزینوں، واپس جانے والوں، متاثرہ افغان آبادیوں اور پاکستانی اور دیگر میزبان کمیونٹیز کو فراہم کیے۔
نینسی ایزو جیکسن نے جمعے کو اسلام آباد کے سیکٹر آئی 12 میں افغان مہاجرین کے بچوں کے لیے قائم ایک اسکول کا دورہ کیا اور وہاں زیر تعلیم بچوں سے ملاقات کی۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ ’یو این ایچ سی آر‘ امریکہ کے تعاون سے اسکول انتظامیہ کے ساتھ مل کر پاکستانی طلباء کے لیے بہتر تعلیمی سہولیات مہیا کرنے اور افغان پناہ گزین بچوں کو حصول تعلیم کے مواقع فراہم کرنےکے لیے سرگرم عمل ہے۔
بیان میں اس توقع کا اظہار بھی کیا گیا کہ اس منصوبےسےکلاس رومز کی توسیع کے ذریعہ پناہ گزین بچیوں کی اسکول میں داخلے کی شرح میں بھی اضافہ ہو گا۔
نائب معاون وزیر خارجہ نینسی ایزو نے پاکستان میں قیام کے دوران ریاستی اور سرحدی امور کے وفاقی وزیر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ اور اسلام آباد میں افغان سفیر عمر زخیلوال کے علاوہ پاکستانی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل بلال اکبر اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کیں۔
واضح رہے کہ پاکستان نے یکم فروری کو ملک میں موجود رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں مزید 60 روز کی توسیع کی تھی۔
پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 14 لاکھ اندارج شدہ جب کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین اپنے کوائف کا اندارج کرائے بغیر مقیم ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے لگ بھگ چار دہائیوں تک افغانوں کی میزبانی کی لیکن اب وہ چاہتا ہے کہ عالمی برداری اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے تعاون سے افغان مہاجرین کی جلد از جلد اُن کے آبائی وطن واپسی کو ممکن بنایا جائے۔