امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ افغانستان میں جاری سیاسی تنازع جلد حل ہو جائے گا۔ سیاسی تصفیے کے لیے صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سمیت دیگر افغان دھڑےمذاکرات شروع کریں۔
واشنگٹن میں نیوز کانفرنس کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن ہم دیکھ رہے کہ میڈیا میں کچھ اور باتیں کی جا رہی ہیں۔ بیانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ نے کابل کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو سیاسی اختلافات ختم کر کے مضبوط حکومت قائم کرنے پر زور دیا تھا۔
مائیک پومپیو کا حالیہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنا آیا ہے جب طالبان نے اپنے ساتھی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کو جواز بنا کر افغان حکومت سے زیرحراست افراد کے تبادلے پر ہونے والے مذاکرات ختم کر دیے ہیں۔
دوسری جانب صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان سیاسی تنازع اب بھی حل طلب ہے۔
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا نام لیے بغیر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تمام فریقین کو کوئی ابہام نہیں ہے کہ اگر وہ امن اور مفاہمت کے عمل کو مناسب، موزوں اور موثر طریقے سے انجام دیتے ہیں تو پھر امریکہ کا افغانستان میں کیا کردار ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مائیک پومپیو نے کہا کہ افغان قیادت کو درپیش سیاسی چیلنج کو دور کرنا صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا کام ہے جب کہ امریکہ کے لیے یہ بات اہم ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد ہو۔
امریکی نشریاتی ادارے 'این بی سی نیوز' نے امریکہ کے دو موجودہ اعلیٰ عہدے داروں اور ایک سابق سفارت کار کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ نے سیاسی تنازع حل کرنے کے لیے افغانستان کی امداد روکنے کی دھمکی دی تھی۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ کابل کے باوجود صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔ جب کہ امریکہ نے افغانستان کو دی جانے والی ایک ارب ڈالرز کی امداد میں فوری طور پر کمی کا اعلان کر دیا تھا۔
ادھر افغان صدر کے دفتر نے کہا ہے کہ کہ افغانستان میں قیام امن حکومت کی ترجیح ہے جب کہ اس سلسلے میں کچھ ضروری اقدامات کیے جا چکے ہیں۔
افغان صدر کے دفتر کے مطابق بین الافغان مذاکرات کے لیے 21 رکنی ٹیم کی تشکیل ہو چکی ہے۔
افغان صدر کے نائب ترجمان دوا خان مینہ پال نے 'این بی سی نیوز' کے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ افغان حکومت امن مذاکرات کے لیے ٹیم کی تشکیل کے بعد ایک مصالحتی کونسل کے قیام کے لیے کام کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری کے آخر میں طے پانے والے معاہدے کے بعد 10 مارچ کو یبن الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔
افغانستان کی سیاسی قیادت کے اختلافات اور افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہو سکے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ اگر صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا سیاسی تنازع حل نہیں ہوا تو اس سے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
عہدیداروں کے مطابق کابل کے سیاسی تنازع کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو مایوسی ہوئی ہے۔ جو یہ توقع کر رہے تھے کہ طالبان سے امریکہ کے معاہدے سے وہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے سے متعلق 2016 کے صدارتی انتخابی وعدے کو پورا کریں گے۔
افغان صحافی زمریالئی اباسین کے بقول اس وقت افغانستان کی سیاسی قیادت کو امریکہ کے دباؤ کا سامنا ہے۔
ان کے بقول اس دباؤ کا خاتمہ اسی صورت ہو سکتا ہے اگر صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اپنے سیاسی اختلافات کو خوش اسلوبی سے حل کرلیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے لیے امریکہ سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کی امداد کا جاری رہنا ضروری ہے کیونکہ اگر یہ امداد بحال نہیں ہوتی تو افغانستان کی سیکیورٹی، سیاسی و سماجی شعبہ جات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول منفی اثرات افغانستان میں پائیدار امن کے حصول کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی افغانستان کے سیاسی رہنماؤں پر دباؤ ڈال سکتا ہے تو وہ امریکہ ہی ہے۔
ان کے بقول افغانستان کو سب سے زیادہ فوجی اور اقتصادی امداد دینے والا ملک امریکہ ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ امریکی کی طرف سے ایک ارب ڈالرز کی امداد روکنے کے اعلان کی وجہ سے کافی فرق پڑا ہے۔
ان کے مطابق امداد رکنے سے ہی افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے 21 رکنی ٹیم کا اعلان کیا۔ جس میں ان کے سیاسی مخالفین بشمول عبداللہ عبداللہ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں عبداللہ عبداللہ کے بیانات میں بھی سختی کم ہو گئی ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر پوری طرح عمل ہو تاکہ افغان تنازع کا سیاسی تصفیہ ہو سکے جب کہ امریکہ اپنی فورسز کا انخلا کر سکے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ افغانستان میں معاملات اپنے پروگرام کے مطابق حل کروانے کے لیے آخری حد تک جائے گا اور دباؤ جاری رکھے گا تاکہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اختلافات کو دور کر کے ایک مخلوط حکومت بنائیں۔ تاکہ طالبان سے بات چیت میں پیش رفت ہو سکے۔