امریکہ نے افغانستان میں سرکاری فورسز اور طالبان کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ جلد از جلد مکمل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل میں مزید تاخیر سے کام نہ لیا جائے۔
کابل میں قائم مقام امریکی سفیر راس ولسن نے اتوار کے روز اپنی کئی ٹوئٹز میں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ سے، جو اب اتحادی حکومت میں شامل ہیں،کہا ہے کہ ہم ملک کے رہنماؤں پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر نئی حکومت قائم کریں، قومی مفاہمت کے لیے ایک ہائی کونسل تشکیل دیں اور طالبان کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ مکمل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ بین الافغان مکالمے کا بھی آغاز کریں۔
مجوزہ مذاکرات قیدیوں کا تبادلہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کل چھ ہزار قیدیوں کا تبادلہ ہونا ہے جن میں سے پانچ ہزار طالبان قیدی ہیں جب کہ ایک ہزار افغان فوجی طالبان کے پاس زیر حراست ہیں۔
افغان عہدے دار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اب تک تقریباً 4400 طالبان کو چھوڑ چکے ہیں، لیکن اب وہ باقی ماندہ 600 قیدیوں کو یہ کہتے ہوئے رہا کرنے سے انکار کر رہے ہیں انہیں آزاد کرنا انتہائی خطرناک ہو گا اور یہ کہ کئی غیر ملکی حکومتوں کا بھی اصرار ہے کہ انہیں جیلوں میں ہی رکھا جائے۔
اس وقت معاملہ بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کا ہے تاکہ مستقل اور جامع فائربندی پر بات چیت ہو سکے۔
امریکی سفیر نے افغان حکومت کی جانب سے مزید قیدیوں کی رہائی سے انکار پر واشنگٹن کی مایوسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے اس تاریخی معاہدے کا حصہ ہے جس کا مقصد 19 سالہ جنگ کا خاتمہ تھا، جو امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ 845 افغان فوجیوں کو پہلے ہی رہا کر چکے ہیں اور باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاہم طالبان عسکریت پسندوں نے تمام 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی تک امن بات چیت میں حصہ لینے کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔
اتوار کے روز طالبان نے کابل حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہ بین الافغان بات چیت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔
طالبان کا کہنا تھا کہ جب تک تمام افغان قیدی رہا نہیں کیے جائیں گے تب تک وہ بین الافغان مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے افغان حکومت کے اس عذر کو بہانہ قرار دیا کہ غیر ملکی حکومتیں باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی نہیں چاہتیں۔