گوانتانامو بے کے خصوصی ملٹری کمیشنوں میں دہشت گردی کے صرف چند ہی مقدمے چلائے گئے ہیں۔
اسامہ بن لادن کے سابق ڈرائیور، سلیم ہمدان کے کیس میں، امریکہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مقدمے کی کارروائی غیر قانونی ہے ۔ دوبارہ مقدمے کے بعد، اس عرصے کے علاوہ جو اس نے مقدمے کا انتظار کرتے صرف کیا تھا، ہمدان کو پانچ مہینے قید کی سزا دی گئی۔ ایک اور کیس میں، آسٹریلیا کے شہری ڈیوڈ ہِکس کو نو مہینے قید کی سزا دی گئی۔
2001 سے اب تک، دہشت گردی کے سینکڑوں ملزموں پر سویلین وفاقی عدالتوں میں مقدمے چلائے جا چکے ہیں۔ ان عدالتوں میں انہیں امریکی شہریوں جیسے آئینی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کیس میں، مراکشی باشندے ذکریا موسوی کو ستمبر 2001 کے حملوں میں ملوث ہونے کے جرم میں، عمر قید کی سزا دی گئی ۔ ایک اور مقدمے میں رچرڈ ریڈ کو، جس نے اپنے جوتے میں چھپائے ہوئے بم سے ہوائی جہاز کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی، عمر قید کی سزا ملی۔
Ginny Sloan واشنگٹن میں قائم قانون پر تحقیق کے ادارے دی کانسٹیٹیوشن پراجیکٹ کی صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وفاقی عدالتیں نہ صرف انصاف فراہم کرنے میں زیادہ موئثر ہیں، بلکہ وہ آئینی حقوق کی حفاظت کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے میں بھی زیادہ موئثر ہیں کہ تمام کارروائی بالکل صحیح طریقے سے ہو رہی ہے اور اسے عدالتوں میں یا کانگریس میں چیلنج نہیں کیا جائے گا۔‘‘
صدر براک اوباما کے گوانتانومو بے کے قید خانے کو بند کرنے کے وعدے میں بھی قیدیوں پر سویلین عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا خیال کار فرما تھا ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کوشش میں احمد خلفان کا مقدمہ سنگ میل ثابت ہو گا۔
لیکن اوباما انتظامیہ گوانتانامو کو بند کرنے کے منصوبے پر نظر ثانی کر رہی ہے کیوں کہ قانون سازوں اور عوام کی طرف سے نائن الیون کی منصوبہ بندی کا اعتراف کرنے والے ملزم، خالد شیخ محمد پر نیو یارک سٹی میں مقدمہ چلانے کی تجویز کی مخالفت ہوئی ہے ۔ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ 2001 کے حملوں کی سازش کرنے والے بعض ملزموں پر گوانتانامو میں ، شہادتوں کے نئے ضابطوں کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
David Cole جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میرا خیال ہے کہ ہم نو برس بعد بھی، اس مشکل میں گرفتار ہیں کہ جن لوگوں نے سنگین نوعیت کے جرائم کیے ہیں، ان پر مقدمہ چلانے کے لیے صحیح جگہ کون سی ہو گی۔‘‘
پروفیسر Cole کہتے ہیں کہ وفاقی عدالتوں اور ملٹری کمیشنوں میں مقدمے چلانے میں بعض دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ وہ سلوک ہے جو ہم نے ان کے ساتھ اس وقت کیا جب وہ سی آئی اے کے خفیہ قید خانوں میں، یا گوانتانامو میں تھے ۔
غیلانی کے کیس میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب وہ بیرون ملک سی آئی اے کی زیرِ انتظام چلنے والی جیل میں تھا، تو اس سے پوچھ گچھ کے دوران انتہائی سخت طریقے اختیار کیے گئے تھے ۔ وہ تنزانیہ کا رہنے والا ہے اور اس پر 1998 میں تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر بمباری کرنے اور قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔
امریکن سول لبرٹیز یونین کے اٹارنی Denny LeBoeuf کہتے ہیں’’یہ کہنا انصاف نہیں ہے کہ ہا ں ہم لوگوں کو اذیتیں دیتے ہیں جو واقعی بری بات ہے۔ لیکن اب ہم ایسا نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن ہم نے اب ان لوگوں کو پکڑ رکھا ہے اور یہ بہت برے لوگ ہیں۔ اب ہمیں انہیں جیل میں بند رکھنے کا کوئی طریقہ معلوم کرنا ہوگا۔ہمیں کوئی کم منصفانہ طریقہ معلوم کرنا ہوگا تا کہ اب تک جو زیادتی ہوئی ہے، اس کا ازالہ ہو جائے۔ لیکن اس طرح زیادتی کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
لیکن بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے ملزموں کے لیے شہادت کے مختلف ضابطے بنانا ہوں گے کیوں کہ یہ کوئی عام جرم نہیں ہے ۔ 2001 میں جب پینٹا گان پر حملہ ہوا، اس وقت جِم گِلمور ورجینیا کے گورنر تھے ۔ وہ کہتے ہیں’’ہمیں ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے جنہیں ہلاک کیا گیا تھا، جو آگ لگی عمارتوں سے نیچے کودنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مہذب معاشروں کو اپنی حفاظت کے لیے نظامِ انصاف قائم کرنے کا حق ہونا چاہیئے ، چاہے وہ جنگ کی حالت میں فوجی نظام ہو، یا سویلین نظام ہو۔ یہ ہمارا حق ہے۔‘‘
اوباما انتظامیہ چاہتی ہے کہ گوانتانامو کے قیدیوں پر اس طرح مقدمہ چلایا جائے کہ وہ بقیہ دنیا کو جائز اور قانونی نظر آئے ۔لیکن دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح جنہیں دہشت گردی کا سامنا ہے،امریکہ میں بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ عدالتی نظام میں دہشت گردی کے ملزموں کے لیے مختلف قسم کے ضابطے بنائے جانے چاہئیں ۔