امریکہ میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 6 لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے کرونا وائرس ریسوس سینٹر کی منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں گزشتہ 15 مہینوں کے دوران کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران ہوئیں۔
اگرچہ حالیہ ہفتوں کے دوران کووڈ-19 کے نئے کیسز اور اموات کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے لیکن یہ اعداد و شمار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ عالمی وبا کتنی زندگیاں نگل چکی ہے اور ابھی تک نگل رہی ہے۔
امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی جانب سے پیر کے روز جاری کئے گئے بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ امریکہ میں کووڈ-19 کے نئے کیسز اور اموات میں ڈرامائی کمی آئی ہے لیکن اب بھی ہم بہت سی زندگیاں اس وبا کے ہاتھوں گنوا رہے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایسا نہ ہونے دیں۔
ایک اور خبر کے مطابق برطانیہ میں وزیر اعظم بورس جانسن نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ کرونا وائرس کی تیزی سے پھیلنے والی نئی قسم ڈیلٹا کے پیش نظر لاک ڈاؤن اٹھانے کی تاریخ میں لگ بھگ چار ہفتوں کی توسیع کر رہے ہیں۔ اب اس وبا سے منسلک تمام پابندیاں 21 جون کی بجائے 19 جولائی کو اٹھائی جائیں گی۔
انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 19 جولائی اہم حتمی تاریخ ہے جب ملک مکمل طور پر کھلنے کی جانب بڑھے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے، امریکہ میں کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں نسلی لحاظ سے بڑی تفاوت پائی جاتی ہے۔ کل ہلاکتوں میں سے سفید فام لوگوں کی تعداد 61 فی صد، ہسپانوی باشندے 19 فی صد، سیاہ فام 15 فی صد جب کہ ایشیائی نسل کے امریکیوں کی تعداد 4 فی صد تھی۔ نسلی اعتبار سے امریکہ میں آبادی کا تناسب بھی تقریباً یہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بیماریوں پر کنٹرول اور بچاؤ کے امریکی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریزرویشن یعنی سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ اگر نسلی گروپوں کے افراد کی عمروں کے فرق کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو ہسپانوی اور سیاہ فاموں میں ہلاکتوں کا امکان دو سے تین گنا زیادہ ہے۔
نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے ہسپانوی نسل کے افراد نسبتاً زیادہ کم عمری میں ہلاک ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق 37 فی صد ہسپانوی باشندوں کی عمریں 65 سال سے کم تھیں جب کہ سیاہ فاموں میں یہ تعداد 30 فی صد اور سفید فاموں میں 12 فی صد تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیاہ فام اور ہسپانوی افراد کی طبی سہولتوں تک رسائی محدود ہے اور ان کی صحت کا معیار بھی اچھا نہیں ہے۔ ان میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کی شرح بھی زیادہ ہے۔ اور یہ کہ انہیں عموماً گھر سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور ان کی کام کی نوعیت ایسی ہے کہ انہیں کام کی جگہوں پر جانا پڑتا ہے اور ان کا لوگوں سے میل ملاپ زیادہ ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان میں ویکسین لگوانے کی شرح بھی کم ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ منگل تک امریکہ میں عالمی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 6 لاکھ 159 تھی اور متاثرین کی تعداد 3 کروڑ 35 لاکھ سے بڑھ چکی تھی۔