امریکہ نے کہا ہے کہ داعش کےباغیوں سےعراقی شہر رمادی کا قبضہ واگزار کرانے کے لیے، وہ نیم سرکاری افواج پر مشتمل نئی کارروائی کی حمایت کرے گا۔ تاہم، اِس بات کو تسلیم کیا کہ ’ایسا کرنا مشکل ہوگا‘۔
پینٹاگان کے ترجمان، کرنل اسٹیو وارن نے کہا ہے کہ صوبائی دارالحکومت انبار کی بازیابی اُس وقت مزید مشکل بنی جب عراقی سکیورٹی فورسز نے امریکی فوجی ہتھیاروں کے وسیع ذخائر کی خبرگیری نہیں کی، ایسے میں جب اتوار کو داعش کے جنگجوؤں کے حملے کے بعد وہ رمادی سے بھاگ نکلیں۔
وارن نے کہا کہ عراقی فوجیوں نے درجنوں امریکی فوجی گاڑیاں پیچھے چھوڑ دیں، جن میں ٹینک، بکتربند گاڑیاں اور توپ خانہ شامل تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ کچھ گاڑیاں قابل استعمال تھیں۔
رمادی پر دولت اسلامیہ کے قبضے کے بعد ناقدین عراق تنازع کے سلسلے میں صدر براک اوباما کی پالیسی پر نکتہ چینی کر رہے ہیں، جس میں باغیوں پر فضائی حملے شامل ہیں۔ لیکن، عراقیوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے زمین پر امریکی بری افواج موجود نہیں ہیں۔
ریپبلیکن کی اکثریت والے ایوان نمائندگان کے اسپیکر، جان بینر کے بقول، ’صدر کا منصوبہ کامیاب ثابت نہیں ہو رہا‘۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ درپیش دہشت گردانہ خطرات کو ناکام بنانے کے لیے وسیع تر حکمت عملی تشکیل دی جائے۔
تاہم، وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ داعش کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے مسٹر اوباما کو نئے فوجی اختیارات تفویض نہیں کر رہی۔
ارنیسٹ کے بقول، کسی مرحلے پر، کانگریس میں کسی کو اس کی ذمہ داری قبول کرنے پڑے گی، نہ یہ کہ اس متعلق ہمیشہ محض شکایت کی جائے۔
پینٹاگان کے ترجمان، وارن نے کہا کہ رمادی پر داعش کے قبضے کی خاصی وجوہات ہیں۔
وارن نے کہا کہ ’رمادی کے ہاتھوں سے جانے کے کئی ایک اسباب ہیں، جن میں سے ایک سبب قیادت کا فقدان ہے۔ لڑائی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ دشمن کی جیت کو ماننا ہوگا‘۔
رمادی پر دوبارہ قبضے کے حصول کے لیے ممکنہ کارروائی کے پیش نظر منگل کو شیعہ ملیشائیں اکٹھی ہونے لگی ہیں۔