امریکہ نے عزم کیا ہے کہ وہ عراقی فورسز کو ’داعش‘ سے رمادی شہر کا قبضہ واپس لینے میں مدد دے گا، اگرچہ عہدیداروں کو تشویش ہے کہ متوقع لڑائی سے اس شدت پسند تنظیم کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
پیر کو امریکی فوج نے رمادی پر قبضے کی اہمیت یہ کہتے ہوئے کم کرنے کی کوشش کی کہ یہ ’’پیچیدہ خونی لڑائی‘‘ کے اتار چڑھاؤ کا حصہ ہے۔ رمادی پر قبضے سے چند دن قبل ہی امریکی فوج نے کہا تھا کہ عراق میں داعش اب دفاعی پوزیشن میں ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان کرنل سٹیو وارن نے کہا ہے کہ ’’ہمیں کچھ عرصے سے معلوم تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمیں اپنے عراقی ساتھیوں کے ساتھ مل کر رمادی کا قبضہ واپس لینا ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان ایرک شلوٹز نے کہا کہ ’’اس بات سے انکار نہیں کہ یہ ایک دھچکا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ہم رمادی کا قبضہ واپس دلانے میں عراقیوں کی مدد کریں گے۔‘‘
امریکہ نے عراقی دارالحکومت بغداد سے 125 کلومیٹر مغرب میں واقع شہر کا قبضہ واپس لینے کے وقت کا تعین نہیں کیا اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ عراقی حکومت کرے گی جبکہ پینٹاگان کا کہنا ہے کہ امریکہ کا کردار عراق کی زمینی فوجوں کو فضائی مدد فراہم کرنے تک محدود ہو گا۔
حکام نے کہا ہے کہ اتحادی ہوائی جہاز رمادی کے اردگرد داعش کے ٹھکانوں پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پیر کو 24 گھنٹے کے عرصے میں آٹھ حملے کیے گئے جبکہ پچھلے تین ہفتوں کے دوران 32 ایسے حملے کیے جا چکے ہیں۔
تاہم امریکی دفاعی حکام نے خبردار کیا ہے کہ رمادی میں داعش کو پیچھے دھکیلنا مشکل ہو گا اور کہا ہے کہ شہری علاقوں میں میدانِ جنگ مشکل چیلنج پیش کرتا ہے۔
شدت پسند گروپ داعش کے جنگجوؤں نے کئی روز تک حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا جس کے بعد گزشتہ ہفتے عراقی فورسز اس شہر سے پسپا ہونا شروع ہوئی اور اب یہ شہر داعش کے قبضے میں ہے۔
عراق کا کہنا ہے کہ اس کی فورسز اور دیگر شیعہ ملیشیا اس شہر کا قبضہ واپس لینے کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ بھی ایسی ہی ایک مشترکہ کارروائی کے دوران داعش سے تکریت شہر کا قبضہ واگزار کروایا گیا تھا۔