پاکستان مالیاتی شفافیت کے کم سے کم تقاضوں پر پورا نہیں اُترتا: امریکہ

(فائل فوٹو)

امریکہ کے محکمہ خارجہ کی طرف سے دنیا کے 140 سے زائد ممالک کی مالیاتی شفافیت سے متعلق ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان مالیاتی شفافیت کے لیے درکار کم سے کم تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان کی بجٹ دستاویزات میں حکومتی اخراجات، آمدنی اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے محصولات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جو عمومی طور پر قابل اعتبار خیال کی جاتی ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں یکم جنوری سے 31 دسمبر 2019 کی مدت کے دوران دنیا کے 141 ممالک کی مالیاتی شفافیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے مبینہ طور پر ان تمام بیرونی قرضوں بشمول چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی تفصیلات عام نہیں کیں جن کی ضمانت حکومت پاکستان نے دے رکھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 65 ممالک ایسے ہیں جو مالیاتی شفافیت کے کم سے کم تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر رہے اور ان ممالک میں پاکستان، چین، بنگلہ دیش اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان مبینہ طور پر مالیاتی شفافیت کے کم سے کم تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ پاکستان نے چین، پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے لیے فراہم کردہ قرضوں کی تفصیلات بھی جاری نہیں کیں۔

پاکستان میں جمعے کو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تھا۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کی مالیاتی شفافیت سے متعلق رپورٹ پر وائس آف امریکہ کی درخواست کے باوجود پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے ترجمان کا تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن پاکستان کے سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔

ان کے بقول سی پیک سے متعلق امریکہ کا ایک اختلاف ہے امریکہ اس کو جس نظر سے دیکھتا ہے اس کا تعلق مالی امور سے نہیں ہے۔ اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔

لیکن ان کے بقول جہاں تک پاکستان کے دفاعی اور انٹیلی جنس اداروں کے بجٹ کا تعلق ہے اب دفاعی بجٹ کی پوری تفصیل پارلیمان کے سامنے رکھی جاتی ہے اور اس پر پارلیمنٹ میں بحث بھی ہوتی ہے۔

ان کے بقول شاید یہ وہ معیار نہیں ہو گا جو امریکہ میں ہو لیکن ان کے بقول یہ ایک ارتقائی عمل ہے اس میں مزید بہتر ی آئے گی۔

خیال رہے کہ پاکستان کے مالی سال 2021-2020 میں دفاعی بجٹ میں 11 فی صد سے زائد کا اضافہ کیا گیا ہے۔

وقار مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران کافی پیش رفت ہوئی ہے اور دفاعی بجٹ کی تفصیلات اب پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہیں۔

محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان قرضوں کی تفصیلات کو عام کر کے اپنی مالیاتی شفافت بہتر کر سکتا ہے جن کی ضمانت حکومت پاکستان نے دی رکھی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے سی پیک منصوبوں کی شفافیت پر بھی سوال اُٹھائے ہیں۔

وقار مسعود کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور جو معلومات انہیں درکار ہوتی ہیں انہیں اس سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

وقار مسعود کا کہنا ہے کہ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک ایسے ادارے ہیں جن کے بارے میں امریکہ یہ گمان نہیں کرے گا کہ یہ شفافیت کو یقینی نہیں بناتے۔

وقار مسعود کا کہنا ہے کہ جب آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کے لیے منظور کیا جاتا ہے اس وقت پاکستان کی مالیاتی ذمہ داریوں کا پوری طرح احاطہ کیا جاتا ہے۔

ان کے بقول پاکستان کے مرکزی اسٹیٹ بینک کو بھی خود مختاری حاصل ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق جن 141 کی مالیاتی شفافیت کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں 75 ممالک ایسے ہیں جو شفافیت کے کم سے کم تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور ان ملکوں میں بھارت بھی شامل ہے۔

یادر ہے کہ اس سے قبل بھی بعض اعلیٰ امریکی عہدے دار چین، پاکستان اقتصادی راہدری منصوبوں سے جڑے قرضوں کی شفافیت سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی اور چینی حکام ان اعتراضات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔