پلوٹو کی نئی ’کلوز اپ‘ تصاویر، امریکی خلائی ادارے، ناسا کے سائنس دانوں کے لیے ’حیران کُن‘ ہیں۔
پلوٹو کے خطِ استوا کے قریبی علاقے سے نئے پہاڑی سلسلے کا انکشاف ہوتا ہے، جِن کی اونچائی 3500 میٹر تک ہے۔
اِن پہاڑوں کا پتا ناسا کے بغیر پائلٹ کے ’نیوہورائزن پروب‘ سے موصول ہونے والی تصاویر سے لگا، جو منگل کو اس بونے سیارے کے قریب سے گزرا، جن لمحوں کے لیے اُسے تقریباً 10 برس تک 4.8 ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا۔
نیوکلیئر توانائی سے چلنے والا’ نیو ہورائزن‘ اب تک بھیجی گئی خلائی گاڑیوں میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہے، یعنی اس کی رفتار تقریباً 30800 میل فی گھنٹہ ہے۔ سامنے سے گزرتے ہوئے، مشن نے پلوٹو کی تصاویر لیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پہاڑ پلوٹو پر موجود پانی اور برف کی آمیزش سے بنے ہیں۔ شاید اِنہوں نے 10 کروڑ سال قبل یہ شکل اختیار کی ہوگی، جب کہ اب بھی یہ عمل جاری ہے۔
نیو ہورائزن کے ارضیات، طبیعیاتُ الارض اور عکس کشی کی ٹیم سے تعلق رکھنے والے، جیف مور نے کہا ہے کہ یہ نظام شمسی کی کم مدت والی تہ ہے، جسے ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک سیارے کو کشش ثقل کے عمل سے گرم نہیں کیا جاسکتا، جس کے ذریعے ہی عام طور پر پہاڑ کے ارضی مناظر تشکیل پاتے ہیں۔
ادارے کے معاون ٹیم لیڈر، جان اسپینسر کے بقول، یہ حالت ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ متعدد دیگر برفانی دنیاؤں میں ارضیاتی تبدیلی کا موجب کیا چیز ہے۔
بدھ کے روز ناسا نے پلوٹو کے سب سے بڑے چاند ’شیرون‘ کی تصویر بھی جاری کی۔ تصویروں میں اونچی ڈھلان اور آبریزے دکھائی دیتے ہیں، جو تقریباً 1000 کلومیٹر پر پھیلا ہوا رقبہ ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اِس بات پر حیران ہیں کہ چاند کی سطح پر آتش فشاں کے نشانات کیوں مرتب نہیں ہیں۔
مشن نے نظام شمسی کی تسخیر کا کام مکمل کر لیا ہے۔ اور اس سے امریکہ وہ واحد ملک بن گیا ہے جس نے عطارد سے پلوٹو تک ہر سیارے پر اپنا خلائی مشن روانہ کیا ہے۔
اِن تصاویر سے اس سیارے کی تفصیلی جھلک ابھرتی ہے، جو اب تک ممکن نہ تھا۔ یہ تصاویر امریکی خلائی ادارہ، ناسا نے جاری کیں، جو ’نیو ہورائزن‘ سے ’ڈاؤن لنک‘ کے ذریعے موصول ہوئیں۔
نیو ہورائزن کی ٹیم نے بدھ کو دی گئی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ، ’زمیں پر منتظر ٹیم کو موصول ہونے والی عکس بندی کی پہلی جھلک‘۔ آسٹریلیا کے شہر، کیمبرا میں خلائی اینٹینا نصب ہے، جس کی معرفت خلائی گاڑی سے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
ایسے لمحات میں جب خلائی گاڑی سے ریڈیو رابطہ منقطع تھا، اور نیو ہورائزن کا پورے دِن تک انتظار کیا جاتا رہا، واشنگٹن ڈی سی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ’جانز ہوپکنز ایپلائیڈ فزکس سینٹر‘ میں موجود مشن کے کنٹرولرز بے چینی سے رابطے کے منتظر رہے۔ نیو ہورائزن کے پلوٹو پر سے گزرنے کے 13 گھنٹے بعد، منگل کو رات گئے، اُنھیں سگنل موصول ہوا، تب جاکر اُن کی جان میں جان آئی۔
خودکار نظام کی مدد سے زمین کے ساتھ رابطہ کرتے ہوئے، نیوہورائزن نے ’گھر فون کرکے‘ اپنا پتا بتایا، اور یہ بھی بتایا کہ اُس کےتمام کل پرزے کام کررہے ہیں۔ موصول ہونے والے اس پیغام پر سب نے خوشی کا اظہار کیا۔
الیس بومن ’مشن آپریشنز‘ کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’ہماری خلائی گاڑی اچھی حالت میں ہے۔ ہم پلوٹو پر موجود ہیں‘۔
اس تصدیق کے بعد، سائنس دانوں نے سکھ کا سانس لیا، جو پورا دِن یہ معلوم کرنےکی کوشش کرتے رہے آیا 70 کروڑ ڈالر لاگت سے بنایا گیا نیو ہورائزن کہیں ’کوئپر بلیٹ‘ سے اٹھنے والی کائنات کی وسیع کرنوں یا ملبے کی نذر تو نہیں ہوگیا۔ کوئپر بیلٹ کا خطہ ’نیپچون‘ سے آگے کی منزل ہے، جو سیارچے نجمیہ سے مماثلت رکھنے والا جہان ہے۔ لیکن، اُن سے 20 سے 200 گُنا زیادہ بڑا ہے۔
ناسا کے سربراہ، چارلس بولڈن کے بقول، ’ایک بار پھر، ہم تاریخ میں کامیابی کے درجہٴاول پر ہیں۔ امریکہ پہلا ملک ہے جو اس مشن کی مدد سے پلوٹو تک پہنچا، ہم نے نظام شمسی کے ہر ایک سیارے پر اپنا جھنڈا گاڑا ہے‘۔
بولڈن نے مزید کہا کہ ’ایک ادارے کی حیثت سے، ناسا، دنیا بھر کے دیگر اداروں کی مدد سے، مریخ پر کمند ڈالنے والا ہے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ’آج کا مشن انسانوں کو مریخ لے جانے کے سلسلے کی ایک کڑی تھا، کیونکہ اس سے ہم نے اپنے نظام شمسی کی گتھیاں سلجھانے کی جانب ایک اہم قدم آگے بڑھایا ہے‘۔