امریکی ریاست، جنوبی کیرولینا کے حکام چارلسٹن سے 100 میل دور ایک اور افریقی امریکن چرچ میں آگ لگنے کی وجوہات کی تحقیقات کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ چرچ منگل کی شب جل کر تباہ ہوا۔
تباہ ہونے والا یہ ماؤنٹ زیون افریقی میتھوڈسٹ ایپسکوپل چرچ، چارلسٹن میں قتل کی واردات کے چرچ سے 100 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
گریلی ویل نامی چھوٹے سے قصبے میں واقع اس چرچ میں منگل کی شب طوفانی بارش کے دوران، اچانک آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کی ایک وجہ بجلی کا نظام ہو سکتا ہے۔ تاہم، مقامی حکام کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کی دیگر وجوہات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ادھر، ایسوسی ایٹڈ پریس نے وفاقی حکام کے حوالے سےخبر دی ہے کہ بظاہر آگ لگائے جانے کے شواہد نہیں ملے۔
گریلی ویل کا یہ چرچ 20 برس قبل بھی بالادستی کے خواہاں سفید فام تنظیم ’کو کلکس کلان‘ کے اراکین کے ہاتھوں نذر آتش ہو چکا ہے۔ بدھ کو لگنے والی آگ سے چرچ کی صرف اینٹوں والی بیرونی دیوار باقی رہ گئی۔ لیکن، حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
گریلی ویل کی ماؤنٹ زیون افریقی میتھوڈسٹ ایپسکوپل چرچ چھٹا مذہبی مرکز ہے جو چارلسٹن میں افریقی امریکن چرچ میں فائرنگ اور 9 افراد کے قتل کے واقعہ کے بعد آگ لگنے سے تباہ ہوا؛ اور یہ تمام کے تمام واقعات جنوبی امریکہ میں یا تو جنوبی کیرولینا یا اس کے قریبی علاقے میں پیش آئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ چھ میں سے دو واقعات میں آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ تاہم، کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ لیکن، سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ یہ واقعات حادثاتی ہیں یا پھر جان بوجھ کر کرائے جا رہے ہیں۔
گریلی ویل کے میئر، جیسی پارکر کا کہنا ہے کہ 1990 ء میں اسی چرچ میں لگنے والی آگ ان کو یاد ہے؛ اور جب انھیں دوسری بار اسی چرچ میں آگ کے شعلے دیکھے کے لئے بلایا گیا تو وہ بیمار ہوگئے۔
بقول ان کے’ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہوا؟‘
سنہ 1990 میں بھی امریکہ میں افریقی امریکن چرچ اسی طرح نذر آتش کرنے، دھماکہ اور دیگر نوعیت کا حملہ کرنے والوں کا ٹارگٹ تھے، جس دوران ایسے 670 واقعات پیش آئے تھے۔