برما میں اصلاحات کا خیر مقدم

برما میں اصلاحات کا خیر مقدم

برما میں جاری بحالی جمہوریت کی تحریک کے حامی صفِ اول کے ایک امریکی سینیٹر نے نظامِ حکومت میں اصلاحات متعارف کرانے پر رنگون حکومت کی تعریف کی ہے۔

سینیٹ میں ری پبلکن اراکین کے رہنما مچِ مک کونیل نے برما کے دارالحکومت میں پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ برمی حکومت کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات سے متاثر ہوئے ہیں تاہم ان کے بقول ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔

امریکی سینیٹر کا کہنا تھا کہ وہ برما میں رواں برس ہونے والے ضمنی انتخابات کے منتظر ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی حکومت نے برما پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کو ضمنی انتخابات کے شفاف انعقاد سے مشروط کر رکھا ہے۔

گفتگو سے قبل مِک کونیل نے رنگون میں نوبیل انعام یافتہ جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی سے بھی ملاقات کی۔

گزشتہ کچھ ماہ کے دوران کئی مغربی رہنما اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کا دورہ کرچکے ہیں جہاں عشروں طویل فوجی آمریت کے بعد گزشتہ برس ایک برائے نام سول حکومت قائم ہوئی ہے۔

گزشتہ سال کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اس نئی حکومت میں اکثریت سابق اور حاضر سروس فوجی افسران کی ہے تاہم اس حکومت نے عشروں طویل آمرانہ فوجی اقتدار کا شکار اس ملک میں کئی اہم اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔

حکومت کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات میں صحافت پر عائد کڑی پابندیوں میں نرمی اور مخالفین کے ساتھ مذاکرات کا آغاز جیسے اہم اقدامات شامل ہیں۔

گزشتہ ہفتے ملک کے صدر تھان سین نے سینکڑوں سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ رہائی پانے والوں میں کئی اہم جمہوریت پسند کارکنان بھی شامل تھے جنہیں ماضی کی فوجی حکومتوں نے قیدی بنایا تھا۔

امریکہ کے صدر براک اومابا نے قیدیوں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے "جمہوری عمل کی جانب ایک ٹھوس قدم" قرار دیا تھا۔