امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیرمین، رچرڈ بَر نے بدھ کے روز کہا ہے کہ کمیٹی نے اس بات کی تفتیش جاری رکھی ہوئی ہے آیا سنہ 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا جس کا مقصد اُن کو کامیاب کرانا تھا۔ تاہم، بَر نے مزید کہا ہےکہ ابھی یہ واضح نہیں آیا اصل معاملہ کیا ہے۔
بَر نے کہا کہ ’’جس بات کی میں تصدیق کروں گا وہ یہ ہے کہ روسی انٹیلی جنس سروس تُلی ہوئی اور چالاک ہے؛ اور میں اِس بات کی سفارش کروں گا کہ ہر انتخابی مہم اور الیکشن سے وابستہ ہر اہل کار اس معاملے کو سنجیدگی سے لے، ایسے میں جب ہم اس سال نومبر میں انتخابات کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور 2018ء کے انتخابات کی تیاری جاری ہے‘‘۔
بَر کا بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب کمیٹی نے اپنی عبوری رپورٹ جاری کی ہے، جس میں 2016ء کے صدارتی انتخاب میں روس کی مبینہ مداخلت کی چھان بین کی گئی ہے، اور یہ کہ آیا ٹرمپ کی انتخابی مہم نے روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا تھا۔
رینکنگ ڈیموکریٹ مارک وارنر نے کہا ہےکہ وفاقی حکومت روس کی مداخلت کے معاملے پر ’’زیادہ جارحانہ انداز اپنائے، جس کاوش میں ساری حکومت شامل دکھائی دے‘‘۔
اُنھوں نے اِس جانب توجہ مبذول کرائی کہ 2016ء کے انتخابات میں روسیوں نے 21 امریکی ریاستوں کے انتخابی نظام میں دخل اندازی کی کوشش کی، اور کچھ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔
حالانکہ بَر نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ابھی تفتیش کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا، وہ سمجھتے ہیں کہ کمیٹی کے ارکان چھان بین کے مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو بتا دیا جائے کہ روس پھر مداخلت کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کی قومی سلامتی کی ٹیم کی اکثریت انٹیلی جنس کمیونٹی کی جانب سے حاصل کردہ اس نتیجے سے متفق ہے کہ گذشتہ سال کے انتخاب کے دوران روس نے ٹرمپ کے حق میں واقعی مداخلت کی۔ تاہم، صدر نے یہ نہیں کہا کہ وہ اس رپورٹ کو درست مانتے ہیں۔