مغربی کنارے کا انضمام، امریکہ کی اسرائیلی اقدام تسلیم کرنے کی یقین دہانی

فائل فوٹو

امریکہ نے کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے اسرائیل میں انضمام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے تاہم اسرائیل کی اتحادی حکومت پہلے فلسطین سے معاملات طے کرے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے پیر کو کہا ہے کہ ہم اس حوالے سے مستقل کہتے آئے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی خود مختاری سے متعلق اقدامات اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قوانین لاگو کیے جانے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔

البتہ مغربی کنارے کے انضمام کے حوالے سے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ فلسطینی کہتے ہیں کہ اس سے دو ریاستی حل کے تمام دروازے بند ہو جائیں گے۔

بن یامین نیتن یاہو حال ہی میں اپنے حریف بینی گینز سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کے بعد اب وہ مزید 18 ماہ تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر رہیں گے۔ معاہدے کے تحت ڈیڑھ سال بعد بینی گینز وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔

یاد رہے کہ رواں سال جنوری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے حوالے سے منصوبہ پیش کیا تھا جس میں مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔

اتحادی حکومت میں شامل گرین اینڈ بلیو پارٹی کے سربراہ بینی گینز کا مغربی کنارے کے انضمام کے حوالے سے کہنا ہے کہ مغربی کنارے سے متعلق واشنگٹن کی یقین دہانی کو تسلیم کرنے سے قبل اسرائیل کی کابینہ اس پر غور کرے گی۔

پیر کو بریفنگ کے دوران امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل جو بھی اقدامات کرے گا اس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے (مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے) وژن کے مطابق فلسطینیوں سے مذاکرات بھی شامل ہوں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسرائیل فلسطین امن منصوبے پر واشنگٹن میں ردِ عمل

خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اعلان کیے گئے امن منصوبے میں مغربی کنارے میں موجود یہودی بستیوں کا اسرائیل میں انضمام شامل ہے۔ تاہم دنیا کے اکثر ممالک ان یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینیوں کو ایک آزاد لیکن غیر عسکری ریاست کے قیام کا وعدہ بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو بہت بڑی سرمایہ کاری کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔

منصوبے کے مطابق فلسطین کا دارالحکومت یروشلم کے مضافات میں ہوگا جب کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ ہوگا۔

امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان کے بقول یہ فلسطینیوں کے لیے ایک بے مثال اور بھر پور فائدہ اٹھانے کا موقع ہے۔

خیال رہے کہ محکمۂ خارجہ کی ترجمان کا بیان امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مغربی کنارے کے الحاق کا فیصلہ اسرائیل کی حکومت نے کرنا ہے۔

فلسطینی حکام ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ فلسطینی امریکی صدر کو جانب دار قرار دیتے ہیں۔ یورپی یونین بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر تنقید کر چکی ہے کہ اس سے دو ریاستی حل ممکن نہیں رہے گا۔

مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کرنے کے حوالے سے عرب لیگ نے بھی رواں ہفتے ایک خصوصی اجلاس طلب کیا ہے جو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہوگا۔

اسرائیلی اخبار 'ٹائمز آف اسرائیل' کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ پُر اعتماد ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کو اس انتخابی وعدے کو پورا کرنے دیں گے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کی خود مختاری مغربی کنارے پر بھی لاگو کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تین ماہ قبل ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت یہودا اور سامرہ پر اسرائیل کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ یہودا اور سامرہ مغربی کنارے کے قدیم نام ہیں جن کا ذکر یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات میں بھی موجود ہے۔

بن یامین نیتن یاہو نے کہا کہ میں پر امید ہوں کہ آئندہ چند ماہ میں ایسا ہو جائے گا۔