امریکہ نے افغانستان کے درالحکومت کابل میں زچہ و بچہ اسپتال اور ننگرہار صوبے میں ایک جنازے پر رواں ہفتے ہونے والے حملوں کا ذمہ دار شدت پسند گروپ ‘داعش خراسان’ کو ٹھیراتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے طالبان نے نہیں، داعش نے کیے تھے۔
ادھر طالبان نے ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان حملوں کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے یہ بات اپنی متعدد ٹوئٹس میں ایک ایسے وقت کہی ہے کہ جب افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں اسپتال اور ننگر ہار صوبے میں ایک جنازے پر ہونے والے خود کش حملوں کے بعد فوج کو طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائیاں تیز کرنے کا حکم دیا تھا۔
زلمے خلیل زاد نے افغان عوام پر زور دیا ہے کہ وہ شدت پسند گروپ کی چال میں نہ آئیں اور امن کے حصول کی لیے متحد ہو جائیں۔
جمعرات کو خلیل زاد نے ٹوئٹس میں کہا کہ داعش افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے خلاف ہے اوروہ عراق اور شام کی طرح افغانستان میں بھی فرقہ وارانہ جنگ کو ہوا دینا چاہتی ہے۔
خلیل زاد نے افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا کہ انہیں داعش خراسان کے پھیلائے گئے جال میں پھنس کر افغان امن عمل میں تاخیر اور امن کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے بجائے اس عفریت کو کچلنے اور امن کے تاریخی موقع کے حصول کے لیے متحدہ ہونا چاہیے۔
یادر ہے کہ شدت پسند گروپ داعش سے منسلک ایک گروپ نے ننگر ہار صوبے میں ایک پولیس عہدیدار کے جنازے پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ تاہم کابل میں زچہ و بچہ اسپتال پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔
دوسری طرف طالبان نے بھی ان دونوں حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن افغان حکومت نے طالبان پر ایسے گروپوں کے ساتھ مل کر حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ جو ان دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے۔ جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے افغان سیکیورٹی فورسز کو طالبان کے خلاف جارحانہ حملے تیز کرنے کا حکم دیا تھا۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعے کو ان حملوں سے متعلق ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ طالبان کا ان حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے ان جرائم پیشہ عناصر نے کیے جو اپنے مذموم مقاصد کے لیے نہتے انسانوں کو قتل کر رہے ہیں۔
طالبان ترجمان نے ان حملوں کی سنجیدہ، شفاف اورغیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تاکہ ان کے بقول ایسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد کے سیاہ چہروں کو بے نقاب کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا یا جا سکے۔
تاہم افغان حکومت کی طرف سے تاحال کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف حملے تیز کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی یا نہیں۔
لیکن افغان نائب صدر اول امراللہ صالح نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ طالبان ذمہ داری قبول نہ کر کے اپنے آپ کو ان حملوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کے خصوصی نمائندے خلیل زاد کی طرف سے شدت پسند گروپ داعش کو حالیہ حملوں کا ذمہ دار قرار دینے کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پیدا ہونے والے کشیدگی اور تناؤ کو کم کرنا ہے۔ جو افغان امن عمل کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں ایسی شرائط ہیں جن کی پابندی کرنا طالبان کے لیے لازم ہے۔
ان کے بقول اگر طالبان اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو امریکہ سب سے پہلے احتجاج کرے گا۔
رحیم للہ یوسف زئی کے خیال میں امریکہ نے اس معاملے کی تحقیقات کر لی ہے کہ رواں ہفتے ہونے والے حملوں میں طالبان ملوث نہیں ہیں۔
ان کے بقول ماضی میں ہونے والے ایسے حملوں کے شواہد کو مدنظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ حملے بھی داعش نے کیے ہیں۔
رحیم اللہ کے بقول داعش نے ننگر ہار صوبے میں ایک جنازے پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
لیکن ان کے بقول شاید داعش نے کابل میں اسپتال پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری اس لیے قبول نہیں کی ہے کیوں کہ اس حملے میں خواتین اور بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں اگر افغان فوج نے طالبان پر حملے کیے تو وہ بھی بھرپور جوابی حملے کریں گے۔ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاملے سمیت افغان امن عمل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو گی۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول امریکہ چاہتا ہے کہ کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ افغان حکومت، طالبان اور دیگر افغان دھڑے بین الافغان مذاکرات شروع کریں۔
یادر ہے کہ رواں سال امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جس کے بعد بین الافغان مذاکرات ہونا تھے۔
لیکن ابھی قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ جس کی وجہ سے افغان مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔
امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی کوششوں کے باوجود طالبان اپنے تمام قیدیوں کی رہائی سے قبل بین الافغان مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔
دوسری طرف پاکستان نے توقع کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر پور ی طرح عمل درآمد سے بین الافغان امن مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے جمعرات کے روز معمول کی پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے نے افغان عوام کو افغانستان میں امن و مصالحت کے حتمی مقصد کے لیے مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
ترجمان کے بقول پاکستان نے ہمیشہ ایک جمہوری ، مستحکم اور خوشحال افغانستان کی حمایت کی ہے اور پاکستان توقع کرتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو گا۔
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی سے جب سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان بین الافغان مذاکرات کی میزبانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی بین الافغان مذاکرات شروع کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ جو امریکہ طالبان معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد پہلا منطقی اقدام ہے۔
ان کے بقول پاکستان یہ توقع کرتا ہے کہ یہ کوششیں جلد کامیاب ہوں گی اور اس وقت اسلام آباد کی طرف سے بین الااٖفغان مزاکرات کی میزبانی کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔