امریکی نمائندہ خصوصی برائے ایران، برائن ہُک نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ نومبر کے وسط سے پیٹرول کے نرخ میں اضافے کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران ہو سکتا ہے ایرانی سیکیورٹی فورسز نے 1000 سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا ہو۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ایک بریفنگ کے دوران، ہُک نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ایسے میں جب کہ ایران سے متعلق مزید حقائق سامنے آ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جب سے احتجاج کا آغاز ہوا ہے، ممکنہ طور پر حکومت نے ایک ہزار سے زائد افراد کو قتل کر دیا ہو‘‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہزاروں ایرانی زخمی بھی ہوئے، جب کہ کم از کم 7000 افراد ایرانی قید ہیں۔
ایران میں ہنگامہ آرائی تب شروع ہوئی جب 15 نومبر کو حکومت نے اچانک پیٹرول کی قیمتیں 300 گنا بڑھا دیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے، ہنگامے 100 سے زائد شہروں اور قصبوں تک پھیل گئے، اور پھر ان میں سیاسی رنگ اس وقت آیا جب نوجوان اور ملازم پیشہ مظاہرین نے دینی رہنماؤں سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔
ایران نے سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد نہیں بتائی۔ تاہم، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پیر کے روز کہا ہے کہ اس کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 208 مظاہرین ہلاک ہوئے۔ اور، یوں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد یہ سب سے زیادہ ہلاکت خیز فسادات تھے۔
ایران کے مذہبی حکمرانوں نے الزام لگایا ہے کہ اس میں ’’ٹھگ ملوث ہیں‘‘، جن کے تانے بانے جلاوطن منحرفین اور امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب جیسے خاص غیر ملکی دشمنوں سے ملتے ہیں۔