اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ ایران میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں اسلحے کے آزادانہ استعمال کی اطلاعات ہیں جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے ترجمان روپرٹ کول وِل نے منگل کو کہا کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس کی بندش کے سبب ہلاکتوں کی درست تعداد معلوم کرنا اور ان کی تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہے۔
لیکن، ان کے بقول، ایران کے مقامی ذرائع ابلاغ اور بعض دیگر ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے یہ شبہ ہے کہ ملک بھر میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مظاہروں کے دوران متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں اور تقریباً ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
روپرٹ کول وِل نے کہا کہ ہم ایرانی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اور ان کی سیکورٹی فورسز مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کریں اور ان سے پُرامن طریقے سے نمٹیں۔
انہوں نے مظاہرین کو بھی پُرامن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ وہ املاک کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں اور تشدد کی راہ اختیار نہ کریں۔
انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم، ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے کہا ہے کہ خدشہ ہے کہ ایران میں مظاہروں کے دوران 100 سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔ تنظیم نے ایرانی حکام سے پرتشدد کارروائیاں روکنے اور انٹرنیٹ بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بقول، انہیں کچھ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایران کے 21 شہروں میں کم از کم 106 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔
ساتھ ہی ایمنسٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کی اصل تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے، کیوں کہ بعض اطلاعات ایسی بھی ملی ہیں کہ 200 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
البتہ، اقوامِ متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ہلاکتوں سے متعلق دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ایرانی حکام نے مظاہروں کے دوران اب تک پانچ ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جن میں تین سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ حکام کے مطابق، سیکورٹی اہلکاروں پر پرتشدد مظاہرین نے حملہ کر کے انہیں شدید زخمی کر دیا تھا جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
خیال رہے کہ ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے حکومتی اقدام کے خلاف گزشتہ پانچ روز سے پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔ ایران نے جمعے کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50 فی صد اضافہ کیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
مظاہروں کے دوران مشتعل افراد نے کئی بینکوں، پیٹرول پمپوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگائی جب کہ اس دوران نامعلوم افراد نے لوگوں کی دکانوں میں لوٹ مار بھی کی۔
دوسری جانب حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے کہا ہے کہ ملک بھر کے مختلف صوبوں میں انٹرنیٹ مرحلہ وار بحال کر دیا جائے گا، لیکن یہ یقین دہانی کرانا ہوگی کہ انٹرنیٹ کا غلط استعمال نہیں ہوگا۔
حکام نے مظاہروں کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تھی۔
ایرانی حکام کے مطابق، مظاہروں کے دوران جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں سے کچھ نے بتایا ہے کہ انہیں ملک اور بیرونِ ملک تربیت دی گئی تھی اور انہوں نے پیسوں کے عوض سرکاری املاک کو آگ لگائی ہے۔