امریکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں روس کے فضائی حملوں کا نشانہ بننے والے اہداف میں سے صرف 30 فی صد کا تعلق داعش سے ہے۔
عراق کا دورہ کرنے والے امریکی ایلچی بریٹ مک گارک نے بدھ کو بغداد میں صحافیوں کو بتایا کہ شام میں روس کے 70 فی صد حملوں کا نشانہ صدر بشار الاسد کی حکومت کےخلاف لڑنے والے حزبِ اختلاف کےگروہ بن رہے ہیں۔
بریٹ مک گارک نے منگل اور بدھ کو بغداد میں عراقی اور امریکی فوجی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں جن میں داعش کے خلاف جاری فوجی کارروائی اور عسکری کوششوں پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
مغربی ممالک اور شامی حزبِ اختلاف کا موقف رہا ہے کہ روس شام میں اپنے فضائی حملوں کے آغاز سے ہی اسد حکومت کے مخالفین کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن روسی حکام اس الزام کی تردید کرتے آئے ہیں۔
گزشتہ ماہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے دعویٰ کیا تھا اکتوبر میں مصر میں مبینہ طور پر داعش کے بم حملے کے نتیجے میں روسی مسافر طیارے کی تباہی کے بعد سے شام میں روسی فضائیہ کی جانب سے داعش کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
منگل کو روس نے پہلی بار بحیرۂ احمرمیں موجود ایک آب دوز سےشمالی شام میں داعش کے مبینہ ٹھکانوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔
روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ دفاع سرگئی سوئیگو نے بدھ کو صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی اورا نہیں آگاہ کیا کہ آب دوز سے فائر کیے جانے والے میزائلوں نے داعش کے زیرِ قبضہ شام کے شہر رقہ میں دو اہداف کو نشانہ بنایا۔
ٹی وی پر نشر کی جانے والی ملاقات کی ویڈیو میں روسی وزیرِ دفاع صدر پیوٹن کو بتا رہے ہیں کہ حملوں کا ہدف ہتھیاروں کااایک ذخیرہ اور بارودی سرنگیں بنانے کا کارخانہ تھا جنہیں دستیاب معلومات کے مطابق حملوں میں اچھا خاصا نقصان پہنچا ہے۔
سرگئی شوئیگو کے بقول روسی طیاروں نے منگل کو ترکی کی سرحد کے نزدیک بھی داعش کے زیرِ قبضہ تیل کی ایک تنصیب پر بمباری کی۔
روسی وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ صرف گزشتہ تین روز کے دوران روسی طیاروں نے داعش کے 600 سے زائد اہداف پر حملے کیے ہیں۔