صدر ٹرمپ نے اِن مہلک حملوں کو ’’ہولناک قتل عام‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں وائٹ ہاؤس نے حملے کی ’’شدید الفاظ میں مذمت‘‘ کی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے گولیاں چلنے کے اس واقع کو ’’نفرت پر مبنی ظالمانہ حرکت‘‘ قرار دیا ہے۔
نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں ہونے والے مہلک حملوں کو ’’ہولناک قتل عام‘‘ قرار دیتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جانب سے دلی ہمدردی اور اپنی انتظامیہ کی طرف سے نیوزی لینڈ کے عوام کے لیے درکار مدد کی پیشکش کی ہے۔
My warmest sympathy and best wishes goes out to the people of New Zealand after the horrible massacre in the Mosques. 49 innocent people have so senselessly died, with so many more seriously injured. The U.S. stands by New Zealand for anything we can do. God bless all!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) March 15, 2019
نائب صدر مائیک پینس نے ٹوئٹر پر اسی قسم کے جذبات کی پیشکش کرتے ہوئے، کہا ہے کہ میں ’’مذہب کے ماننے والے افراد پر ہونے والے حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں‘‘۔
We send our condolences & prayers to the families of those who perished in the horrific mosque shootings in Christchurch, New Zealand. We condemn this attack on people of faith in the strongest terms. America stands with @JacindaArdern & the people of New Zealand. God be with you
— Vice President Mike Pence (@VP) March 15, 2019
ایک بیان میں، وائٹ ہاؤس نے حملے کی ’’شدید الفاظ میں مذمت‘‘ کی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے گولیاں چلنے کے اس واقع کو ’’نفرت پر مبنی ظالمانہ حرکت‘‘ قرار دیا ہے۔
نماز جمع کے دوران ہونے والے ان حملوں میں 49 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم، جیسنڈا آرڈرن نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے، ملک میں گولیاں چلنے کے اس مہلک ترین حملے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر، جان بولٹن نے گولیاں چلنے کے واقع کے لیے کہا ہے کہ ’’یہ ایک دہشت گرد حملہ‘‘ اور ’’نفرت پر مبنی جرم‘‘ لگتا ہے۔
بولٹن نے کہا ہے کہ امریکہ نیوزی لینڈ کے حکام اور ویلنگٹن کے امریکی سفارت خانے سے رابطے میں ہے، اور واقعات پر ’’انتہائی گہرائی سے‘‘ نظر رکھے ہوئے ہے۔
جمعے کے روز ہونے والی اخباری بریفنگ کے دوران، امریکی وزیر خارجہ، مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ویلنگٹن کے امریکی سفارت خانے نے حملے کی مذمت کی ہے اور امریکی عوام کی جانب سے متاثرین کے لیے اظہار ہمدردی اور لواحقین کے لیے دعائیہ کلمات پیش کیے ہیں۔
پومپیو نے کہا کہ ’’ہم مصیبت کی اس گھڑی میں نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام کو اپنی غیر متزلزل یکجہتی کی پیشکش کا عہد کرتے ہیں‘‘۔
نیو یارک سٹی کے میئر بل ڈی بلاسیو نے کہا ہے کہ وہ شہر کی مساجد کے گرد پولیس کی نفری میں اضافہ کر رہے ہیں، حالانکہ ’’فی الوقت اس نوعیت کے کسی خطرے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی‘‘۔
The horrifying Islamophobic attacks in New Zealand are an attack on everything New York City stands for; all faiths are welcome here.Intolerance is spreading across our country and our world. We MUST stand against it in all its forms. https://t.co/u79PT5i7p8
— Mayor Bill de Blasio (@NYCMayor) March 15, 2019
نیو یارک کے گورنر انڈریو کئومو نے بھی ایک ’’احتیاطی تدبیر کے طور پر‘‘ مساجد کے گرد پولیس کی نفری میں اضافے کا اعلان کیا ہے۔
My heart breaks for the victims of the horrific attack in New Zealand. In the wake of this disgusting act of bigoted violence, which appears to be rooted in Islamophobia, New York stands with the Muslim community as we always have and always will. pic.twitter.com/44EmdaoH1o
— Andrew Cuomo (@NYGovCuomo) March 15, 2019
ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز (سی اے آئی آر) کے منتظم اعلیٰ، نہاد اود نے کہا ہے کہ ’’مسلمانوں پر حقیقی خوف طاری ہے، جنھیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ سفید فام بالادستی میں یقین رکھنے والوں اور سیاسی رہنماؤں سے چوکنہ رہیں، جو سفید فام بالا دستی پر عمل پیرا ہیں‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ نماز جمعہ کی عبادت میں ضرور شریک ہوں۔
After the mosque terror attack in New Zealand, @CAIRNational founder @NihadAwad says Muslims should go to prayer and not be intimidated by acts of violence."Do not be afraid. Do not abandon your mosques. Not today, not ever" pic.twitter.com/HnC0QdcUsw
— TicToc by Bloomberg (@tictoc) March 15, 2019
امریکہ میں دونوں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے بھی بیانات دیے ہیں، جن میں کئی ڈیموکریٹ ہیں اور 2020کے صدارتی انتخابات میں شریک ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے نفرت اور شدت پسندی کی حرکات کی مذمت اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے۔
سینیٹر کملہ ہیرس نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ یہ قتل عام ہے، ’’اُن کے خلاف جو عبادت گاہ میں، نماز ادا کر رہے ہیں۔ یہ شیطانی اور بزدلانہ عمل ہے‘‘۔
My heart is heavy with grief for New Zealand & Muslims worldwide affected by the tragic murders in Christchurch. The massacre of those in a house of worship, in prayer, is evil & cowardly. We stand with our friends around the world to condemn hate & speak out against intolerance.
— Kamala Harris (@KamalaHarris) March 15, 2019
کانگریس کی سابق رکن، بیٹو او رورکے نے کہا ہے کہ ’’لاتعلقی کے اظہار سے دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
We don%27t back down in the face of Islamophobia and racism at home or abroad. We stand up, stand together and make it clear that terrorism won%27t be met with indifference but with action that honors our diversity as the people of the world. Thinking of our friends in New Zealand.
— Beto O%27Rourke (@BetoORourke) March 15, 2019
سینیٹر برنی سینڈرز نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ مل کر اس حملے کی مذمت کریں؛ اور یہ کہ ’’نفرت اور شدت پسندی کسی بھی شکل میں ہو‘‘ قابل مذمت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اپنے مذہب کی بنیاد پر کسی کو اپنی جان کا خطرہ نہیں ہونا چاہیئے۔
Our thoughts are with the victims of the horrific attack in Christchurch, New Zealand. No one should have to fear for their life because of their religion. We must come together to condemn all forms of hate and violence to build a future of respect and understanding.
— Bernie Sanders (@BernieSanders) March 15, 2019
ایوان نمائندگان میں ریپبلیکن ارکان نے بھی اپنی ٹوئیٹس میں ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ اُنھوں نے دعائیہ کلمات اور یکجہتی کے جذبات کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
Disgraceful, murderous attack in New Zealand mosque must be condemned by everyone who respects human life & decency. These murderers are lowest of the low. Thoughts & prayers must be with families & friends of the victims, the members of the Mosque and all New Zealanders. R.I.P.
— Rep. Pete King (@RepPeteKing) March 15, 2019
I am heartbroken for my Muslim friends & cannot imagine their sadness as they awake to this terrible news. The attacks in New Zealand remind us again that hate & radicalism have no boundaries. Americans stand united with New Zealand during this difficult time. #NewZealandShooting
— Jim Banks (@RepJimBanks) March 15, 2019
We mourn with the people of New Zealand in the face of such evil today. It’s clear hate has no religion, & we must all stand united against terrorism. My thoughts & prayers are with the victims, their families, & the Christchurch community.
— Adam Kinzinger (@RepKinzinger) March 15, 2019
نیوزی لینڈ کے پولیس کمشنر، مائیک بش نے کہا ہے کہ تین مرد اور ایک خاتون کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ایک 28 برس کے شخص کو قتل کے مبینہ الزام میں زیر حراست رکھا گیا ہے، جنھیں ہفتے کی صبح کرائسٹ چرچ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کی وزیر کرسٹین ایم نیلسن نے نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں اُنھوں نے کہا ہے کہ پُرتشدد انتہاپسندوں سے تحفظ کے لیے ہوم لینڈ سیکورٹی درکار اقدام لے رہی ہے۔
کرسٹین نیلسن نے کہا کہ داخلی طور پر کوئی قابل بھروسہ اور متحرک خدشہ درپیش نہیں ہے، ناہی نیو زی لینڈ کے حملہ آوروں سے منسلک کسی شخص یا گروہ کا پتا چلا ہے۔ تاہم، محکمہ مسلمان امریکی کمیونٹیز کے ارکان کی ممکنہ تشویش سے بخوبی آگاہ ہے، ایسے میں جب وہ نماز کی ادائگی کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔
ہوم لینڈ سیکورٹی کی وزیر نے کہا کہ مذہبی آزادی اس ملک کا خاصہ ہے۔ پر امن لوگوں پر عبادتگاہوں میں ہونے والے حملے قابل مذمت ہیں جنھیں کسی طور پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ عبادت گزاروں کو چاہیئے کہ وہ پر امن کے ماحول میں عبادت کریں، اور یہ ہماری کوشش رہے گی کہ نمازی کسی ڈر خوف کے بغیر آزادی کے ساتھ نماز کی ادائگی جاری رکھیں۔