پاکستان کو عالمی دہشت گرد ’واچ لسٹ‘ میں شامل کیے جانے کا امکان

فائل

رائٹرز کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ مبینہ روابط کی بنا پر، امریکہ دھمکی دیتا رہا ہے کہ وہ پاکستان سے سختی برتے گا

ایک اعلیٰ پاکستانی عہدے دار کے مطابق، امریکہ نے ایک تحریک پیش کی ہے تاکہ پاکستان کو عالمی دہشت گرد مالیاتی ’واچ لسٹ‘ میں شامل کیا جائے، جس کی نگرانی ’منی لانڈرنگ‘ پر نظر رکھنے والا ایک گروپ کرے گا۔

حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان کوششیں کرتا رہا ہے کہ اُن ملکوں کی فہرست میں شامل کیے جانے سے بچ جائے، جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ’فائننشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی رو سے دہشت گرد مالیاتی ضابطوں پر عمل درآمد پر پورے نہیں اترتے۔ اہل کاروں کو اِس بات کا ڈر لاحق ہے کہ اِس اقدام کے نتیجے میں معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ خبر رائٹرز خبر رساں ادارے نے جاری کی ہے۔

خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ مبینہ روابط کی بنا پر، امریکہ دھمکی دیتا رہا ہے کہ وہ پاکستان سے سختی برتے گا، اور گذشتہ ماہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے تقریباً 2 ارب ڈالر مالیت کی امداد معطل کر دی تھی۔

پاکستان اس بات کو مسترد کرتا رہا ہے کہ وہ افغانستان اور بھارت میں شدت پسندوں کی مدد کرتا ہے۔ اُس نے امریکہ کی جانب سے مزید تادیبی اقدامات کے خدشات پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔

’ایف اے ٹی ایف‘ رُکن ممالک کا ایک اجلاس آئندہ ہفتے پیرس میں منعقد ہونے والا ہے، جس دوران تنظیم پاکستان کے خلاف تحریک کی منظوری دے سکتی ہے۔

’ایف اے ٹی ایف‘ پیرس میں قائم ایک بین الحکومتی ادارہ ہے، جو ناجائز مالیات کے خلاف عالمی سطح کے معیار کا تعین کرتا ہے۔

پاکستان کے فی الواقع وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل نے رائٹرز کو بتایا کہ امریکہ اور برطانیہ نے چند ہفتے قبل ایک تحریک پیش کی تھی اور بعدازاں فرانس اور جرمنی کو سرپرستی میں شریک بننے پر قائل کیا تھا۔

اسماعیل نے یورپ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے، کہا تھا کہ ’’ہم اب امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے ساتھ مل کر نامزدگی واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔

بقول اُن کے، ’’ہمیں توقع ہے کہ اگر امریکہ نامزدگی واپس نہیں بھی لیتا، تو ہم اس بات میں کامیاب ہوجائیں گے کہ ہمیں واچ لسٹ میں شامل نہ کیا جائے‘‘۔

پاکستان 2012ء سے 2015ء تک ’ایف اے ٹی ایف‘ کی واچ لسٹ پر رہا ہے۔

ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار، جو خطے میں امریکی پالیسی پر نظر رکھتے ہیں، کہا ہے کہ شدت پسندوں سے سختی برتنے کے معاملے پر پاکستان ہمیشہ امتیاز سے کام لیتا رہا ہے، جو اپنے اڈے کے طور پر اس کا علاقہ استعمال کرتے رہے ہیں۔

افغانستان سے ملحقہ سرحد کے ساتھ ساتھ متحرک شدت پسندوں کا حوالہ دیتے ہوئے، عہدے دار نے بتایا کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ اس بات کو روکا جائے، اس لیے ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، جو بھی متاثر ہوئے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ حقانیوں اور طالبان عناصر جیسے گروہوں کے ساتھ مؤثر کارروائی کی جائے‘‘۔