واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے، کہ اس معاہدے سے لگ رہا ہے، کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلّقات میں ایک اور نہایت ہی ہیجان خیز باب اختتام کو پہنچ گیا ہے
واشنگٹن پوسٹ کا اداریہ
راول پنڈی میں پاکستان اور امریکہ کے مابین افغانستان میں نیٹو افواج کے لئے رسد کا راستہ کھولنے پر جس معاہدے پردستخط ہوئے ہیں ، اُس پر واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے ، کہ اس معاہدے سے لگ رہا ہے، کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلّقات میں ایک اور نہایت ہی ہیجان خیز باب اختتام کو پہنچ گیا ہے۔جس سے افغانستان کی جنگ کو خاتمے تک پہنچانے میں، کم از کم لاجسٹکل امداد کی حد تک پاکستان کا تعاون حاصل ہو گیا ہے، اور اخبار کے بقول امریکہ نے پاکستان کو یہ تحریک دی ہے کہ وہ زیادہ سرگرمی کے ساتھ امن کے عمل میں شرکت کرے۔ اور اس مقصد سے اُن عسکریت پسند تنظیموں کو مذاکرات کی میز پر لے آئے ۔ جنہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ اور جو با قاعدگی کے ساتھ سرحد عبور کرکے نیٹو افواج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس معاہدے کی رُو سے اُن زبانی سمجھوتوں کو باقاعدہ تحریری شکل دی گئی ہےجو امریکہ نے ماضی میں پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مُشرّف کے ساتھ طے کر رکھے تھے ۔ اور جنہیں سنہ 2008 میں ایک سویلین حکومت کے برسر اقتدار آنے پر جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ مشرّف اپنی خارجہ حکمت عملی اور اپنے سمجھوتوں کو طے کرنے میں من مانی کرتے تھے۔اور ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد اُنہوں نے جو سودا طے کیا تھا اُس کے تحت پاکستان نے دہششت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرنے کی حامی بھری تھی ، جس میں رسد کے راستے فراہم کرنا شامل تھا۔اور اس کے عوض پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی گئی ۔ امریکہ نے بالآخر پاکستان کونیٹو کا رُکن نہ ہونے کے باوجُود اپنا بڑا اتّحادی نامزد کیا۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ اس اتّحاد کو ایک سخت امتحان سے گُذرنا پڑا ، جب ایک امریکی حملے میں اُسامہ بِن لادن کو ہلاک کیا گیا۔ اور پچھلے سال نومبر میں جب ایک امریکی فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تو یہ اتّحاد عملا ً ختم ہو گیا ۔
اب جو یہ معاہدہ طے پایا ہے، اُس پر واشنگٹن پوسٹ کہتا ہےکہ یہ پاکستانی فوج کی کھُلی شرکت کے بغیر ہی ہوا ہے ، اور امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی جنرل الگ رہے اور اُنہوں نے سویلین لیڈروں کو یہ معاہدہ طے کرنے کا موقع دیا ۔ یہ سارا عمل سست روی اور سیاست کاری کا شکار رہا، اور دقّت طلب بھی ۔
اخبار کے مطابق بعض پاکستانی عہدہ دارنیٹو کے لئے اس معاہدے کو ایک تاریخ ساز واقعہ سمجھتے ہیں۔ جس سے یہ اشارہ ملتا ہےکہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے باہمی تعلّقات میں ایک فون کال والا دورختم ہو گیا ہے ۔ اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان کے سویلین حکمرانوں کو ، جنہوں نے قوم کے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی جدّوجہد کی ہے۔ اب خارجہ حکمت عملی وضع کرنے میں عمل دخل حاصل ہے۔
نیویارک ٹائمز کا اداریہ
اسی موضوع پر نیو یارک ٹائمز کہتا ہے ، کہ کئی مہینوں کے صبر آزما مذاکرات کے بعد پاکستان اور امریکہ کے مابین نیٹو کے رسد کا راستہ دوبارہ کھولنے پر معاہدہ ہو گیا ہے۔ اور دونوں ملک واپس پٹڑی آ رہے ہیں۔ لیکن باہمی تعلقات کی نوعیت اب بھی ایسی ہے کہ کسی بھی وقت بھڑک سکتے ہیں۔ اور جن امُور پر اختلافات بدستور موجود ہیں ، اُن میں قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے ، خود افغانستان کی جنگ، اور سب سے متنازعہ معاملہ، یعنی حقّانی نیٹ ورک ۔۔ امریکی عہدہ دار وں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس درپردہ ان باغیوں کو امداد فراہم کرتی ہے۔ پاکستانی عہدہ دار اس الزام کی تردید کرتے ہیں ، اور اس کے جواب میں یہ الزام لگا تے ہیں کہ اوباما انتظامیہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں سے توجُّہ ہٹانا چاہتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اُسے شمالی وزیرستان میں پناہ ملی ہوئی ہے۔ جہاں پاکستانی فوج اُنہیں کُچھ نہیں کہتی۔ امریکہ عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈالتا آیاہے کہ وُہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے ۔ لیکن فوج کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم کاروائی نہیں کرنا چاہتے، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ اخبار آگے چل کر کہتا ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنر ل اشفاق پرویز کیانی پرائیویٹ گفتگو میں امریکی عہدہ داروں کو بتا بتا چُکے ہیں، کہ وُہ اگلےبارہ مہینوں کے دوران حقّانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کاروائی کرینگے ، لیکن بقول اخبار بیشتر امریکی عہدہ دارو ں کا کہنا ہے کہ انہیں اس کا یقین نہیں ہے۔ بلکہ ایک امریکی عہدہ دار کے بقول کہ جنگ کی تاریخ میں یہ کاروائی سب سے زیادہ تاخیر کا شکار ہے۔
راول پنڈی میں پاکستان اور امریکہ کے مابین افغانستان میں نیٹو افواج کے لئے رسد کا راستہ کھولنے پر جس معاہدے پردستخط ہوئے ہیں ، اُس پر واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے ، کہ اس معاہدے سے لگ رہا ہے، کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلّقات میں ایک اور نہایت ہی ہیجان خیز باب اختتام کو پہنچ گیا ہے۔جس سے افغانستان کی جنگ کو خاتمے تک پہنچانے میں، کم از کم لاجسٹکل امداد کی حد تک پاکستان کا تعاون حاصل ہو گیا ہے، اور اخبار کے بقول امریکہ نے پاکستان کو یہ تحریک دی ہے کہ وہ زیادہ سرگرمی کے ساتھ امن کے عمل میں شرکت کرے۔ اور اس مقصد سے اُن عسکریت پسند تنظیموں کو مذاکرات کی میز پر لے آئے ۔ جنہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ اور جو با قاعدگی کے ساتھ سرحد عبور کرکے نیٹو افواج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس معاہدے کی رُو سے اُن زبانی سمجھوتوں کو باقاعدہ تحریری شکل دی گئی ہےجو امریکہ نے ماضی میں پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مُشرّف کے ساتھ طے کر رکھے تھے ۔ اور جنہیں سنہ 2008 میں ایک سویلین حکومت کے برسر اقتدار آنے پر جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ مشرّف اپنی خارجہ حکمت عملی اور اپنے سمجھوتوں کو طے کرنے میں من مانی کرتے تھے۔اور ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد اُنہوں نے جو سودا طے کیا تھا اُس کے تحت پاکستان نے دہششت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرنے کی حامی بھری تھی ، جس میں رسد کے راستے فراہم کرنا شامل تھا۔اور اس کے عوض پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی گئی ۔ امریکہ نے بالآخر پاکستان کونیٹو کا رُکن نہ ہونے کے باوجُود اپنا بڑا اتّحادی نامزد کیا۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ اس اتّحاد کو ایک سخت امتحان سے گُذرنا پڑا ، جب ایک امریکی حملے میں اُسامہ بِن لادن کو ہلاک کیا گیا۔ اور پچھلے سال نومبر میں جب ایک امریکی فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تو یہ اتّحاد عملا ً ختم ہو گیا ۔
اب جو یہ معاہدہ طے پایا ہے، اُس پر واشنگٹن پوسٹ کہتا ہےکہ یہ پاکستانی فوج کی کھُلی شرکت کے بغیر ہی ہوا ہے ، اور امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی جنرل الگ رہے اور اُنہوں نے سویلین لیڈروں کو یہ معاہدہ طے کرنے کا موقع دیا ۔ یہ سارا عمل سست روی اور سیاست کاری کا شکار رہا، اور دقّت طلب بھی ۔
اخبار کے مطابق بعض پاکستانی عہدہ دارنیٹو کے لئے اس معاہدے کو ایک تاریخ ساز واقعہ سمجھتے ہیں۔ جس سے یہ اشارہ ملتا ہےکہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے باہمی تعلّقات میں ایک فون کال والا دورختم ہو گیا ہے ۔ اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان کے سویلین حکمرانوں کو ، جنہوں نے قوم کے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی جدّوجہد کی ہے۔ اب خارجہ حکمت عملی وضع کرنے میں عمل دخل حاصل ہے۔
نیویارک ٹائمز کا اداریہ
اسی موضوع پر نیو یارک ٹائمز کہتا ہے ، کہ کئی مہینوں کے صبر آزما مذاکرات کے بعد پاکستان اور امریکہ کے مابین نیٹو کے رسد کا راستہ دوبارہ کھولنے پر معاہدہ ہو گیا ہے۔ اور دونوں ملک واپس پٹڑی آ رہے ہیں۔ لیکن باہمی تعلقات کی نوعیت اب بھی ایسی ہے کہ کسی بھی وقت بھڑک سکتے ہیں۔ اور جن امُور پر اختلافات بدستور موجود ہیں ، اُن میں قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے ، خود افغانستان کی جنگ، اور سب سے متنازعہ معاملہ، یعنی حقّانی نیٹ ورک ۔۔ امریکی عہدہ دار وں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس درپردہ ان باغیوں کو امداد فراہم کرتی ہے۔ پاکستانی عہدہ دار اس الزام کی تردید کرتے ہیں ، اور اس کے جواب میں یہ الزام لگا تے ہیں کہ اوباما انتظامیہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں سے توجُّہ ہٹانا چاہتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اُسے شمالی وزیرستان میں پناہ ملی ہوئی ہے۔ جہاں پاکستانی فوج اُنہیں کُچھ نہیں کہتی۔ امریکہ عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈالتا آیاہے کہ وُہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے ۔ لیکن فوج کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم کاروائی نہیں کرنا چاہتے، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ اخبار آگے چل کر کہتا ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنر ل اشفاق پرویز کیانی پرائیویٹ گفتگو میں امریکی عہدہ داروں کو بتا بتا چُکے ہیں، کہ وُہ اگلےبارہ مہینوں کے دوران حقّانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کاروائی کرینگے ، لیکن بقول اخبار بیشتر امریکی عہدہ دارو ں کا کہنا ہے کہ انہیں اس کا یقین نہیں ہے۔ بلکہ ایک امریکی عہدہ دار کے بقول کہ جنگ کی تاریخ میں یہ کاروائی سب سے زیادہ تاخیر کا شکار ہے۔