سالہا سال کے کُشت و خُون، اور طالبان کے خلاف فوجی کاروائی اور تیز کرنے کے لئے سخت امریکی دباؤ کے بعد، پاکستان کی سیاسی اور سیکیورٹی کی قیادت اب اس بات پر متّفق ہوگئی ہے کہ اُس کے لئے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنا بہترین راستہ ہے: تجزیہ کار
واشنگٹن —
پاکستانی طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت پر جو بحث ملک کے طول و عرض میں ہو رہی ہے، اُس پر’نیو یارک ٹائمز‘ کے تجزیہ کار ڈیکلن والش کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک وِلن کو مظلُوم کا درجہ دیا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ، جب تک وُہ زندہ تھا، تو اُسے عوام کا اوّل درجے کا دُشمن مانا جاتا تھا۔ ایک ایسا بے رحم شخص، جس نے اپنی زندگی، قتل و غارت، اور تخریب کاری کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ ’ایک وُہ وقت بھی تھا جب پاکستانی تجزیہ کار اُسے ہندوستان کا بلکہ امریکی انٹیلی جینس کا آلہٴ کار بھی سمجھتے تھے۔
لیکن، جیسا کہ تجزیہ کار کا کہنا ہے، اپنی موت کے بعد اُس نے پاکستانی دل جیت لئے ہیں۔ اور ایک امریکی ڈرون سے داغے ہوئے مزائیلوں سے جب وہ اپنی گاڑی میں ہلاک ہوگیا، تو اس پر پاکستانی لیڈروں کا ردِّعمل غیر معمولی حد تک سخت تھا۔ بلکہ، پاکستانی وزیر داخلہ نے اسے پاکستانی طالبان کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کو سیبوتاژ کرنے سے تعبیر کیا تھا۔
میڈیا کے مبصرین نے اسے امریکہ کی دغابازی قرار دیا ہے، جب کہ عمران خان نے خیبر پختوں خواہ سے گذرنے والی نیٹو فوجی سامان رسد کا راستہ بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔
تجزیہ کار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ عملی طور پر کسی شخص نے اعلانیہ محسود کی ہلاکت کا خیرمقدم نہیں کیا۔ حالانکہ وُہ ہزاروں پاکستانیوں کی ہلاکت کا مجرم تھا۔ امریکہ کے بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک اس پر جس سخت ردّعمل کا اظہار کیا گیا، وہ ایک کجروی اور ناشکرگُذاری کی علامت ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ضرر پہنچا ہے۔ اس کے برعکس، بُہت سےپاکستانی امریکہ پر دوغلی پالیسی کا الزام لگاتے ہیں۔
تجزیہ کار کی دانست میں، حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر یہ ابہام دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کا نتیجہ ہے، جو نفسیات اور سیاست کے ایک پیچیدہ مرکّب سے عبارت ہے، جس کی جزوی وجہ ملک میں سخت جان بغاوت پر قابو پانے میں پاکستان کی ناکامی ہے۔ چنانچہ، سالہا سال کے کُشت و خُون، اور طالبان کے خلاف فوجی کاروائی اور تیز کرنے کے لئے سخت امریکی دباؤ کے بعد پاکستان کی سیاسی اور سیکیورٹی کی قیادت اب اس بات پر متّفق ہوگئی ہے کہ اُس کے لئے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنا بہترین راستہ ہے۔
ڈکلن والش کہتے ہیں کہ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ایک طرف عافیہ صدّیقی کو جو افغانستان میں امریکیوں ہلاک کرنے کی کوشش کرنے کی پاداش میں نیو یارک میں 86 سال کی قید کاٹ رہی ہیں، پاکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہوگیا ہے اور اُسے دُختر ملت کہا جاتا ہے تو دوسری طرف تعلیم کے لئے لڑنے والی مجاہدہ ملالہ یوسف زئی کو، جس کو پچھلے سال طالبان نے گولی ماردی تھی، اور جس نے اپنی تحریک کی بدولت دنیا بھر میں نام کمایا ہے، راندہٴدرگاہ کیا جارہا ہے۔ اور اُسے سی آئی اے کا ایجنٹ اور مغرب کا غلام قرار دیا جارہا ہے۔
والش نے بعض تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ کی طرف مخاصمت کے اس رویّے سے پاکستانیوں کی اس بات کا تعیُّن کرنے کی صلاحیت مجروح ہوئی ہے کہ کیا چیز اُن کے بہترین مفاد میں ہے۔
بوسٹن یونی ورسٹی کے پاکستان نژاد پروفیسر عادل انجم کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر جو ہنگامہ ہوا ہے، اُس میں حکومت ڈرون حملوں کی اپنی مخالفت کے مطالبے کو قتل و غارت پر تلے ہوئےجنگجو دشمن کی ہلاکت سے علیٰحدہ نہیں کر سکی ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ بڑی نُقصان دِہ بات ہے کہ ہم ان دو چیزوں کو علیٰحدہ نہیں کر سکتے۔
مذاکرات کے بارے میں ایک مختلف اسرائیلی نقطہٴنظر کے عنوان سے ڈیلیا داسا کے ’لاس انجلس ٹائمز‘ میں رقمطراز ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی سخت گیر لائن کے باوجود بہت سے اسرائیلیوں کو یقین ہے کہ سفارت کاری کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
ایران کے ساتھ جینیوا مذکرات شروع ہوتے ہی نیتن یاہو نے اس معاہدے کو اعلانیہ مسترد کردیا تھا، جس کے حصول کے لئے سفارت کار کوشاں تھے اور ان کا موقّف یہ تھا کہ ایران کے لئے یہ اچھا سودا ہو تو ہو، لیکن دوسرے ملکوں کے لئے یہ بہت برا سودا ہوگا۔
کالم نگار کا کہنا ہے کہ جینیوا مذاکرات میں کوئی معاہدہ تو طے نہیں پایا، لیکن اس ماہ کے اواخر میں جب یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے تو اُنہیں یہ بات ملحوظ نظر رکھنی چاہئے کہ نیتن یاہو کے برعکس تمام اسرائیلیوں کو معاہدہ طے پانے کے امکان پر کوئی تشویش نہیں ہے۔ بلکہ، بعض لوگوں کو ایک ایسا سودا طے پا جانے کی امید ہے جس میں ایران کو محدود پیمانے پر یورینیم کے افزودگی کی اجازت دی جائے گی اور اسرائیل کی سیکیورٹی بھی یقینی ہو جائے گی۔
نیتن یاہو کے لئے ایران کے ساتھ صرف وُہ معاہدہ قابل قبول ہوگا جس کے تحت ایران کی یورینیم افزودہ کرنے کی تمام تنصیبات کو مسمار کرنا ہوگا۔ اور بیشتر مغربی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ نصب العین غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ اور ایران کے ساتھ جب یہ دُشوار مذاکرات دوبارہ شروع ہوں، تو امریکہ کے لئے ضروری ہے کہ وُہ ایران کے معاملے میں اسرائیل کے پیچیدہ سیاسی منظرنامے کو ذہن میں رکھے۔
اور آخر میں، ایچ آئی وی کے موُذی مرض پر نئی تحقیق سے متعلّق ’بوسٹن ہیرلڈ‘ کی یہ رپورٹ کہ ختنے کی بدولت یہ مرض لگ جانے کا خطرہ 50 فی صد کم ہوجاتا ہے۔ یہ تحقیق اری ذونا کے جیونومکس کے ایک ادارے کی مرہون منّت ہے۔ اگرچہ، سائینس دانوں کو ابھی یہ نہیں معلوم کہ اس کی وجہ کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ، جب تک وُہ زندہ تھا، تو اُسے عوام کا اوّل درجے کا دُشمن مانا جاتا تھا۔ ایک ایسا بے رحم شخص، جس نے اپنی زندگی، قتل و غارت، اور تخریب کاری کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ ’ایک وُہ وقت بھی تھا جب پاکستانی تجزیہ کار اُسے ہندوستان کا بلکہ امریکی انٹیلی جینس کا آلہٴ کار بھی سمجھتے تھے۔
لیکن، جیسا کہ تجزیہ کار کا کہنا ہے، اپنی موت کے بعد اُس نے پاکستانی دل جیت لئے ہیں۔ اور ایک امریکی ڈرون سے داغے ہوئے مزائیلوں سے جب وہ اپنی گاڑی میں ہلاک ہوگیا، تو اس پر پاکستانی لیڈروں کا ردِّعمل غیر معمولی حد تک سخت تھا۔ بلکہ، پاکستانی وزیر داخلہ نے اسے پاکستانی طالبان کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کو سیبوتاژ کرنے سے تعبیر کیا تھا۔
میڈیا کے مبصرین نے اسے امریکہ کی دغابازی قرار دیا ہے، جب کہ عمران خان نے خیبر پختوں خواہ سے گذرنے والی نیٹو فوجی سامان رسد کا راستہ بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔
تجزیہ کار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ عملی طور پر کسی شخص نے اعلانیہ محسود کی ہلاکت کا خیرمقدم نہیں کیا۔ حالانکہ وُہ ہزاروں پاکستانیوں کی ہلاکت کا مجرم تھا۔ امریکہ کے بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک اس پر جس سخت ردّعمل کا اظہار کیا گیا، وہ ایک کجروی اور ناشکرگُذاری کی علامت ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ضرر پہنچا ہے۔ اس کے برعکس، بُہت سےپاکستانی امریکہ پر دوغلی پالیسی کا الزام لگاتے ہیں۔
تجزیہ کار کی دانست میں، حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر یہ ابہام دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کا نتیجہ ہے، جو نفسیات اور سیاست کے ایک پیچیدہ مرکّب سے عبارت ہے، جس کی جزوی وجہ ملک میں سخت جان بغاوت پر قابو پانے میں پاکستان کی ناکامی ہے۔ چنانچہ، سالہا سال کے کُشت و خُون، اور طالبان کے خلاف فوجی کاروائی اور تیز کرنے کے لئے سخت امریکی دباؤ کے بعد پاکستان کی سیاسی اور سیکیورٹی کی قیادت اب اس بات پر متّفق ہوگئی ہے کہ اُس کے لئے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنا بہترین راستہ ہے۔
ڈکلن والش کہتے ہیں کہ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ایک طرف عافیہ صدّیقی کو جو افغانستان میں امریکیوں ہلاک کرنے کی کوشش کرنے کی پاداش میں نیو یارک میں 86 سال کی قید کاٹ رہی ہیں، پاکستان میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہوگیا ہے اور اُسے دُختر ملت کہا جاتا ہے تو دوسری طرف تعلیم کے لئے لڑنے والی مجاہدہ ملالہ یوسف زئی کو، جس کو پچھلے سال طالبان نے گولی ماردی تھی، اور جس نے اپنی تحریک کی بدولت دنیا بھر میں نام کمایا ہے، راندہٴدرگاہ کیا جارہا ہے۔ اور اُسے سی آئی اے کا ایجنٹ اور مغرب کا غلام قرار دیا جارہا ہے۔
والش نے بعض تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ کی طرف مخاصمت کے اس رویّے سے پاکستانیوں کی اس بات کا تعیُّن کرنے کی صلاحیت مجروح ہوئی ہے کہ کیا چیز اُن کے بہترین مفاد میں ہے۔
بوسٹن یونی ورسٹی کے پاکستان نژاد پروفیسر عادل انجم کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر جو ہنگامہ ہوا ہے، اُس میں حکومت ڈرون حملوں کی اپنی مخالفت کے مطالبے کو قتل و غارت پر تلے ہوئےجنگجو دشمن کی ہلاکت سے علیٰحدہ نہیں کر سکی ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ بڑی نُقصان دِہ بات ہے کہ ہم ان دو چیزوں کو علیٰحدہ نہیں کر سکتے۔
مذاکرات کے بارے میں ایک مختلف اسرائیلی نقطہٴنظر کے عنوان سے ڈیلیا داسا کے ’لاس انجلس ٹائمز‘ میں رقمطراز ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی سخت گیر لائن کے باوجود بہت سے اسرائیلیوں کو یقین ہے کہ سفارت کاری کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
ایران کے ساتھ جینیوا مذکرات شروع ہوتے ہی نیتن یاہو نے اس معاہدے کو اعلانیہ مسترد کردیا تھا، جس کے حصول کے لئے سفارت کار کوشاں تھے اور ان کا موقّف یہ تھا کہ ایران کے لئے یہ اچھا سودا ہو تو ہو، لیکن دوسرے ملکوں کے لئے یہ بہت برا سودا ہوگا۔
کالم نگار کا کہنا ہے کہ جینیوا مذاکرات میں کوئی معاہدہ تو طے نہیں پایا، لیکن اس ماہ کے اواخر میں جب یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے تو اُنہیں یہ بات ملحوظ نظر رکھنی چاہئے کہ نیتن یاہو کے برعکس تمام اسرائیلیوں کو معاہدہ طے پانے کے امکان پر کوئی تشویش نہیں ہے۔ بلکہ، بعض لوگوں کو ایک ایسا سودا طے پا جانے کی امید ہے جس میں ایران کو محدود پیمانے پر یورینیم کے افزودگی کی اجازت دی جائے گی اور اسرائیل کی سیکیورٹی بھی یقینی ہو جائے گی۔
نیتن یاہو کے لئے ایران کے ساتھ صرف وُہ معاہدہ قابل قبول ہوگا جس کے تحت ایران کی یورینیم افزودہ کرنے کی تمام تنصیبات کو مسمار کرنا ہوگا۔ اور بیشتر مغربی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ نصب العین غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ اور ایران کے ساتھ جب یہ دُشوار مذاکرات دوبارہ شروع ہوں، تو امریکہ کے لئے ضروری ہے کہ وُہ ایران کے معاملے میں اسرائیل کے پیچیدہ سیاسی منظرنامے کو ذہن میں رکھے۔
اور آخر میں، ایچ آئی وی کے موُذی مرض پر نئی تحقیق سے متعلّق ’بوسٹن ہیرلڈ‘ کی یہ رپورٹ کہ ختنے کی بدولت یہ مرض لگ جانے کا خطرہ 50 فی صد کم ہوجاتا ہے۔ یہ تحقیق اری ذونا کے جیونومکس کے ایک ادارے کی مرہون منّت ہے۔ اگرچہ، سائینس دانوں کو ابھی یہ نہیں معلوم کہ اس کی وجہ کیا ہے۔