اخبار ڈیلی نیو ز نے اپنے ایک اداریے میں ناروے میں ہونےو الے دہشت گردی کے ان حالیہ واقعات کو موضوع بناتے ہوئے جس میں نوجوانوں کے ایک سمر کیمپ میں فائرنگ اور سرکاری عمارتوں پر بم دھماکوں میں90لوگ ہلاک ہو ئے یہ قدرتی سوال اٹھایا ہے کہ آخر دہشت گردی کےیہ واقعات ناروے جیسے پر امن ملک ہی میں کیوں پیش آئے جوامن کے نوبیل انعام کا مرکز ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس وقت ناروے بڑے پیمانے پر ہونےو الی ہلاکتوں کے دکھ اور ان واقعات سے پیدا ہونے والےخوف میں مبتلا ہے ۔ اور یہاں ان واقعات نے ٹائمز اسکوائر کے اس بم کی یاد دلا دی جو پھٹ نہ سکا اور اس خیال کو جنم دیا کہ یہاں کسی مصروف سڑک پر کوئی ایک مسلح شخص کتنی زیادہ جانیں لے سکتا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ پولیس نےناروے کے ایک 32 سالہ نوجوان کو حراست میں لے لیا ہے اور شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس کی دہشت گردی دائیں بازو کے انتہا پسندوں جیسی دکھائی دیتی ہے ۔ جبکہ ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ دھماکہ ناروے کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سےزیادہ اس کے اوکلاہاما سٹی کا دھماکہ تھا ۔ اور اخبار اپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ انتہا پسندی کہیں تو کسی مذہبی عقیدے کو غلط رنگ دینے کے نتیجے میں اور کہیں کسی سیاسی نظریے کی بنیاد پر سامنے آتی ہے لیکن نوعیت اور انداز خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو انتہا پسندی کی خصوصیات اور اثرات ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ اور ناروے پر دہشت گرد حملے اس بات کا افسوسناک ثبوت ہیں کہ تمام مہذب ملکوں کو دہشت گردی کی جنگ کا سامنا ہے۔
اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں امریکہ میں قرض کی حد اور خساروں پر جاری بحث کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بحث سے یہ تاثرملتا ہے کہ قانون ساز یہ سمجھ رہے ہیں کہ وفاقی بجٹ کے بحران کے حل سے ملک کی بگڑی ہوئی معیشت کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ دراصل یہ وفاقی حکومت کی مالیاتی مشکلات کے پیچیدہ مسئلے کا صرف ایک پہلوہے اور قرض کی حد میں اضافے پر مرکوز بحث کے نتیجے میں ایک اس سے بھی زیادہ فوری نوعیت کا مسئلہ پس پشت چلا گیا ہے اور وہ یہ کہ کس طرح مزید بے روزگار امریکیوں کو کام پر واپس لایا جائے۔اخبار لکھتا ہے کہ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ قرض کی حد میں جلد اضافہ نہ کرنے سے معیشت مزید بگڑ جائے گی ۔لیکن اخبار لکھتا ہے کہ بد قسمتی سے ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز قرض کی حد میں اضافے کے معاہدے پر متفق ہونے میں اس قدر سخت رویہ اپنا رہے ہیں کہ اس سے یہ امکان پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ ممکن ہے کانگریس مالیاتی منڈیوں کو کسی بحران سے بچانے کے لیے وقت پر کوئی اقدام نہ کر سکے۔ جو اخبار کے بقول ایک بڑاا المیہ ہو گا۔
آگے چل کر اخبار لکھتا ہے کہ خسارے میں کمی کے کسی بھی منصوبے کا مقصد چار یا پانچ سال کے اندر اندر قرض کو مستحکم کرتے ہوئے بجٹ گیپ میں بتدریج اور قابل اعتماد طریقے سے کمی ہونی چاہیے ۔ اس از سر نو یقین دہانی سے کاروباری کمپنیاں سرمایہ کاری اور صارفین خرچ پر پر مائل ہوں گے اگرچہ کمزور معیشت میں عوامی پروگراموں پر اخراجات میں کمی سے ملازمتوں میں کمی کا خطرہ بر قرار رہے گا ۔
تاہم اخبار مشورہ دیتا ہے کہ مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ قرض کی حد میں اضافے کے معاہدے میں مجموعی اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اقدامات شامل کیے جائیں جن سےقلیل المیعاد مدت میں ملازمتوں کی تعداد میں اضافہ ہو ۔ اور اس کی ایک اچھی مثال یہ ہوگی کہ شاہراہوں اور دوسرے انفرا سٹرکچر کی تعمیر کا کوئی زبرد ست پروگرام شروع کر دیا جائے ۔ تاہم اخبار لکھتا ہے کہ اگر کانگریس ایسا نہ کر سکے تو اس کے لیے مسئلے کے حل کا ایک اور بہترین طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ قرض کی حد میں اضافے کی بحث سے پہلے بے روزگاری کے مسئلے پر بحث کرے تاکہ وہ بے روزگاری پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر سکے جو معیشت کی بحالی کے لیے کہیں زیادہ فوری خطرہ ہے۔
اخبار نیو یارک پوسٹ نے اپنے ایک اداریے میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے تیرہ روزہ مشن کے بعد شٹل اٹلانٹس کی کینڈی اسپیس سینٹر پر واپسی اور اس کی ریٹائر منٹ کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ خلا کا یہ سفر42 سال قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب نیل آرمسڑانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان بنے تھے جہاں انہوں نے فوری طور پر امریکی پرچم نصب کیا تھا۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ 135 مشنز کے بعد شٹل پروگرام کے خاتمے سے خلا کے سفر اور تحقیق میں امریکہ کی ایک عرصے سے تسلیم شدہ قیادت کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ صدر اوباما نے ناسا سے 2025 ءکے بعد خلا بازوں کو کسی سیارچے پر جب کہ 2030 کے وسط تک مریخ پر کوئی انسان بردار مشن بھیجنے کے لیے کہا ہے لیکن یہ تاریخیں واضح نہیں ہیں اور ان مشنز کو بھی بجٹ کی ویسی ہی مشکلات درپیش ہوں گی جیسی مشکلات کے باعث اپالو کا فائنل مشن منسوخ ہوا تھا۔
آگےچل کر اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ شٹل کے پروگراموں میں نقائص موجود تھے تاہم چیلنجر اور کولمبیا کے سانحوں کےباوجود اس کے کارناموں سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ مثال کے طور پر اس کے بغیر نہ تو خلائی اسٹیشن تعمیر ہو سکتا تھا ، نہ ہی خلائی دوربین ہبل خلا میں بھیجی جا سکتی اور نہ ہی اس کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ۔ او رسب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے ذریعے بین الاقوامی شراکت داروں سے بھر پور تعاون بھی ممکن ہو سکا ۔
اخبار لکھتا ہے کہ شٹل کی ریٹائر منٹ کا مطلب اگرچہ بد قسمتی سےیہ ہے کہ امریکی خلا بازوں کو خلائی اسٹیشن تک پرواز کے لیے اس وقت تک روس اور جاپان پر انحصار کرنا پڑے گا جب تک نجی طور پر تیار کردہ امریکی خلائی جہاز تیار نہیں ہو جاتے ۔ لیکن جیسا کہ اٹلانٹس کے کمانڈر کیپٹن کرسٹوفر فرگوسن نے واضح کیا ہے کہ 30 سال تک دنیا کی خدمت کرنے کے بعد خلائی شٹل نے تاریخ میں اپنا مقام حاصل کر لیا ہے اور اب وہ اپنے سفر کے آخری اسٹاپ تک پہنچ گئی ہے