نیو یارک کے اسٹاک ایکس چینج میں جمعرات کو Dow Jonesکے صنعتی اوسط میں ایک دم سے پانچ سو سے زیادہ پوائنٹس کی جو گِراوٹ آئی ہے،’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ میں اُس کا تجزیہ کرتے ہوئے معروف ماہرِ اقتصادیات اور نوبیل انعام یافتہ پال کریگ من کہتے ہیں کہ اِس گِراوٹ کے ساتھ ساتھ سُود کی شرح ریکارڈ حد تک گِر جانے سے اِس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ امریکی قومی معیشت میں بحالی نہیں آرہی، اور واشنگٹن کی تشویش غلط باتوں پر مرکوز رہی ہے۔ اور، اب اِس واضح حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ملک بحالی کی راہ پر روانہ ہی نہیں ہوا تھا۔
’فیڈرل رِزرو‘ دو سال سے کہتا آیا ہے کہ معیشت میں بہتری آرہی ہے لیکن مصنف کا کہنا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
مصنف نے یاد دلایا ہے کہ امریکہ میں بر سرِ روزگار افراد کی شرح جون 2007ء میں 63فی صد تھی جو چار سال بعد گِر کر 58اعشاریہ دو فی صد رہ گئی۔امریکہ میں لوگوں کی بھاری تعداد یا تو بالکل بیکارہے یا پورے طور پر روزگار پر نہیں ہے۔
اِن حالات میں بہت سے لوگوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ غلطی پر تھے اور اُنہیں اپنی ترجیحات کو بدلنا پڑے گا۔ مصنف کا اندازہ ہے کہ اوباما انتظامیہ کو خسارے کو کم کرنے کے روزگار پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیئے تھی۔ لیکن، اب بھی وقت ہے کہ معیشت کو جو حقیقی بحران درپیش ہے، اُس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
پال کروگ من کا کہنا ہے کہ صدر کو ایسی تجاویز پیش کرنی چاہئیں جِن کے طفیل روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور اگر ری پبلیکن ان تجاویز کو روکیں تو پھر اُنھیں اُن کے خلاف ہیری ٹرومن کی طرح کی مہم چلانی چاہیئے۔
جمعرات کو نیو یارک کے بازارِ حصص میں ڈاؤ جونز کے صنعتی اوسط میں ایک دم سے پانچ سو سے زیادہ پوائنٹس گِرجانے کے بعد ’وال اسٹریٹ جرنل‘ لکھتا ہے کہ 2008ء میں بنکوں میں اعتبار کے بحران کے بعد سے یہ سب سے بڑا تنزل ہےجِس کے بعد توجہ عالمی حکومتوں کی طرف جاتی ہے جِن کے اوپر قرضوں کا ایک انبار ہے اور جِن کی اپنا مالی نظام بچانے کی صلاحیت گِر گئی ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ملکی معیشت غالباً دوہرے ہندسوں کی کساد بازاری کا شکار ہوسکتی ہے، جب کہ ’فیڈرل رِزرو‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اِس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اِس میں کچھ مدد کرسکے۔
’فیڈرل رِزرو‘ پہلے ہی مالیاتی منڈیوں میں 23کھرب ڈالر پمپ کر چکا ہے۔ لیکن امریکی معیشت کو اتنی تقویت نہیں دے سکا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے۔اور چونکہ زورخسارے کو کم کرنے پر ہے اِس لیے امریکی حکومت کی طرف سے کوئی بڑا اقتصادی
Stimulus Planفراہم ہونا ناممکن نظر آرہا ہے۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ میں کالم نویس ڈیوڈ جیکسن لکھتے ہیں کہ صدر اوباما جب اپنا صدارتی انتخاب لڑیں گے تو اُنھیں ایک بڑا مسئلہ درپیش ہوگا، یعنی کسادبازای۔
اخبار کہتا ہے کہ بے روزگاری کی بھاری شرح اور عالمی منڈیوں کی افراتفری کی وجہ سے یہ اندیشہ پھیل رہا ہے کہ تین سال میں دوسری مرتبہ ملک کساد بازاری کا شکار ہوجائے گا۔
إِس سے پہلے تین سال کے اندر دوبار اِس قسم کی کساد بازاری 30سال پہلے 1980ءمیں ہوئی تھی اور اگر ایسا ہوا تو اوباما کے لیے
ری پبلیکن غلبے والے ایوانِ نمائندگان سے کوئی اقدام پاس کرانا مشکل ہوگا، جیسا کہ حالیہ مسائل سے ظاہر ہے جو اُنھیں قومی قرضے کی حد کو 143کھرب ڈالر تک بڑھانے میں پیش آئے تھے۔
آنے والے ہفتوں کے دوران صدر اوباما کو جِن پروگراموں کی پیروی کرنا ہے اُن میں روزگار بڑھانےکا پروگرام، پے رول ٹیکس میں توسیع، بے روزگاری میں ملنے والی مراعات کی توسیع، آزادانہ تجارتی معاہدوں کی توثیق اور بنیادی ڈھانچے کے پروگرام شامل ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: