اخبار'یو ایس اے ٹوڈے' نے شام کے قصبے حولہ میں ہونے والے حالیہ قتلِ عام کو اپنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ ہفتے شام میں ایک ہی دن میں 49 بچوں سمیت 100 سے زائد عام شہریوں کے قتل نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس سانحے کے بعد شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف کاروائی کے لیے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ شام کے بحران میں عالمی برادری اب تک کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کرسکی اور عرب لیگ اور اقوامِ متحدہ وہاں جاری قتل و غارت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ صدر بشار الاسد کی سفاکی اور شام کی داخلی صورتِ حال کے باعث خطے میں عدم استحکام کاخطرہ بڑھ رہا ہے۔ انہی خدشات کے تحت امریکی کانگریس کے کئی اراکین کی جانب سے شامی افواج کے خلاف فضائی حملوں، پناہ گزینوں کے لیے محفوظ بستیوں کے قیام اور شامی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے مطالبات سامنے آئے ہیں۔
لیکن اخبار کے مطابق صدر اوباما اس معاملے پر کوئی قدم اٹھانے میں انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کی وجوہات قابلِ فہم ہیں۔
اول تو یہ کہ روسی عنایتوں کے طفیل شامی افواج کی دفاعی صلاحیت خاصی مضبوط ہے اور اس کی بیشتر دفاعی تنصیبات گنجان آباد علاقوں کے نزدیک یا ان کے بیچوں بیچ واقع ہیں۔ ایسی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش میں عام شہریوں کو بھی بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے باعث یہ بحران مزید سنگین اور خوں ریز ہوجائے گا۔
دوسرے یہ کہ حکومتی تشدد سے بچنے کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے والے پناہ گزینوں کے لیے محفوظ بستیاں قائم کرنے کی غرض سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام میں اپنی زمینی افواج داخل کرنی پڑیں گی۔ ایسا کرنے کی صورت میں شام کا بحران ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہوجائے گا جس سے تنازع کے سبھی فریق بچنا چاہتے ہیں۔
'یو ایس اے ٹوڈے' کے مطابق مغربی ممالک شامی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے سے اس لیے ہچکچا رہے ہیں کیوں کہ ایک تو یہ باغی کسی مربوط تنظیم کاحصہ نہیں اور دوسرا ان کی صفوں میں 'القاعدہ' سے منسلک بعض عناصربھی موجود ہیں۔ لہذا، اگر ان گروہوں کومسلح کیا گیا تو شام کا بحران مکمل خانہ جنگی کی صورت اختیار کرسکتا ہے جس میں بالآخر نقصان عام شہریوں کا ہی ہوگا۔
اخبار لکھتا ہے کہ شام کے بحران پر صدر اوباما کی پالیسی اور آئندہ صدارتی انتخاب میں ان کے ممکنہ ری پبلکن حریف مٹ رومنی کی تجاویز تقریباً ملتی جلتی ہیں۔ دونوں ہی رہنما روس سے تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ شام کی صورتِ حال پر مثبت اور فعال کردار ادا کرے اور دونوں ہی وہاں براہِ راست فوجی مداخلت کے مخالف ہیں۔
'یو ایس اے ٹوڈے' کے اداریہ نویس کے بقول اس اتفاقِ رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شامی بحران کا کوئی فوری اور سستا حل دستیاب نہیں۔ اخبار کے مطابق شام کا مسئلہ نہ تو ریت میں منہ چھپانے سے حل ہوگا اور نہ ہی ہتھیار لے کر دمشق پر چڑھ دوڑنا کوئی دانش مندانہ راستہ ہے۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ دنیا کو شام کے بحران کے حل کےلیے کوئی درمیانہ راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اخبار نے امید ظاہر کی ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے نفاذ، سفارتی دباؤ اور شامی حزبِ اختلاف کے ایسے گروہوں کو محدود مقدار میں اسلحہ فراہم کرکے امن کی راہ نکالی جاسکتی ہے جن کا دہشت گردی سے تعلق نہ ہو۔
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی معاشرے میں چھوٹے ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔
مضمون نگار لکھتا ہے کہ امریکہ میں چھوٹے ہتھیاروں سے ہونے والی ہلاکتوں کی سالانہ تعداد دیگر صنعتی ملکوں کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ قومی سیاسی ایجنڈے سے غائب ہوچکا ہے۔
مضمون نگار کے بقول امریکہ میں جب بھی کوئی شخص کسی کی گولی کا نشانہ بنتا ہے تو روایتی اظہارِ افسوس اورغم وغصے کے مصنوعی مظاہرے کے بعد یہ معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ امریکی معاشرے میں ہتھیاروں پر قابوپانے کا مطالبہ کرنے والی آوازیں کمزور پڑتی جارہی ہیں لیکن اس کے برعکس ہتھیاروں کی حمایت کرنے والے گروہ اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے بھرپور مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اسلحے سے نفرت کو پروان چڑھانے کے لیے امریکی شہریوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ان کے ملک میں اب بھی پرتشدد جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ صرف گزشتہ سال ہی جرائم کی ان وارداتوں میں جتنے امریکی اپنی جانوں سے گئے، ان کی تعداد افغانستان اور عراق میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکی معاشرے میں جرائم پیشہ اورنفسیاتی طور پر غیر مستحکم افراد کی اسلحے تک پہنچ مشکل بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے اسلحے کی اسمگلنگ اور غیر قانونی منڈیاں ختم کرنا ہوں گی اور متعلقہ قوانین کو موثر بنانا ہوگا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: