امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ افغانستان میں استحکام اور جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے اُن کا ملک پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
اُنھوں نے یہ بات امریکی کانگریس میں قومی سلامتی کی حکمت پیش کرتے ہوئے کہی۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خطرات کو کم کرنے، امن کے قیام میں مدد دینے، افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے لیے مصالحتی عمل اور علاقائی استحکام کو بہتر بنانے کے لیے ’’ہم خطے کے ممالک بشمول پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے‘‘۔
اُنھوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ امریکہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں علاقائی اقتصادی یکجہتی، اسٹریٹیجک استحکام اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
دریں اثنا امریکی وزارت خارجہ کی ایک ترجمان میری ہارف نے روزانہ کی نیوز بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ کے بھارت اور پاکستان دونوں سے تعلقات ہیں اور واشنگٹن کے لیے یہ تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ صدر براک اوباما کا حالیہ دورہ بھارت بہت اہم تھا لیکن اُن کے بقول امریکہ سمجھتا ہے کہ بھارت کے پڑوسی ممالک سے تعلقات اچھے ہونے چاہیں اور اس کے لیے نئی دہلی کو اور اقدامات اٹھانے چاہیں۔
پاکستانی قانون سازوں نے امریکہ کے صدر کے اس بیان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ’’پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ہمیشہ سے طویل المدت اسٹریٹیجک تعلقات رہے ہیں اور ہم نے کوشش کی ہے کہ اُس کو زیادہ با مقصد اور حقیقت پسندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کے لیے کار آمد بنایا جائے۔‘‘
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات میں اپنے ملک کے وفد کی قیادت کی تھی۔
اس دورے کے دوران اُن کی پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے بھی تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے جان کیری سے ملاقات میں کہا کہ تھا کہ امریکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔