کارسن صدارتی مہم سے دستبردار ہوجائیں: مسلمان فلاحی تنظیم

بین کارسن

’کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز‘ کے منتظم، نہاد اَود نے کہا ہے کہ کارسن، جو ایک دیندار مسیحی ہیں، جنھیں عام جائزہ رپورٹوں میں ریپبلیکن ووٹر لیڈر کا درجہ دیتے ہیں، اُنھیں صدارتی مہم کی دوڑ سے دستبردار ہونا چاہیئے، کیونکہ، بقول اُن کے، ’وہ قیادت کے قابل نہیں رہے‘

امریکہ میں اسلامی شہری آزادیوں کے لیے سرگرم ایک گروپ نے پیر کے روز سابق نیورو سرجن اور ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار، بین کارسن سے مطالبہ کیا ہے کہ کسی مسلمان کو امریکہ کا سربراہ نہیں بننا چاہیئے کے بیان کے بعد اُنھیں پارٹی کی جانب سے 2016ء کی صدارتی نامزدگی کی انتخابی دوڑ سے دستبردار ہوجانا چاہیئے۔

’کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز‘ کے انتظامی سربراہ، نہاد اَود نے کہا ہے کہ کارسن، جو ایک دیندار مسیحی ہیں، جنھیں عام جائزہ رپورٹوں میں ریپبلیکن ووٹر لیڈر کا درجہ دیتے ہیں، اُنھیں صدارتی مہم کی دوڑ سے دستبردار ہونا چاہیئے، ’کیونکہ وہ قیادت کے قابل نہیں رہے۔ اُن کے خیالات امریکی آئین سے متصادم ہیں‘۔

اَود نے اِس بات کی طرف توجہ دلائی کہ آئین کہتا ہے کہ ’امریکہ میں کسی عوامی عہدے کے حصول کے لیے، کبھی کوئی مذہبی امتحان درکار نہیں ہوگا۔‘

اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، نہاد اَود نے کہا کہ ’اس کا غلط مفہوم نہیں لیا جانا چاہیئے۔۔۔ کئی نسلوں سے، تمام امریکی ان کلمات کو صاف انداز میں سمجھتے ہیں، بغیر اس بات کے کہ وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہیں‘۔

کارسن نے اتوار کے روز ’این بی سی‘ کے ’میٹ دِی پریس‘ پروگرام میں کہا تھا کہ ’میں اس بات کی وکالت نہیں کروں گا کہ ہم کسی مسلمان کو قوم کا سربراہ بنائیں۔ میں اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں کروں گا‘۔

اُنھوں نے کہا کہ صدر کے عقائد ووٹروں کے لیے وقعت کا درجہ رکھتے ہیں اور اُنھوں نے اسلامی عقائد کو آئین کے مخالف قرار دیا، حالانکہ اُنھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی آیا اسلام کس طرح سے آئینی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

کارسن کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے ریپبلیکن صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے، نیو ہیمپائر میں ایک تقریب کے دوران، ایک شخص کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی، جس نے صدر براک اوباما کو غلط طور پر ایک مسلمان قرار دیا، اور کہا کہ ’اِس ملک میں مسلمان ایک مسئلہ ہیں‘ ۔

ریپبلیکن پارٹی کی جانب سے صدارتی دوڑ کے لیے باضابطہ امیدوار نامزد کرنے میں ابھی چار ماہ سے زیادہ وقت باقی ہے۔ امریکہ میں کیے گئے رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ کے بعد، مقبولیت میں کارسن دوسرے نمبر پر ہیں۔