2012ء کے انتخاب کی دوڑ میں آپ مزید دو ریپبلیکنز کو شامل کر سکتے ہیں۔ ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مِٹ رومنی اور ریاست پینسلوینیا کے سابق سینیٹر رِک سینٹورَم نے اس ہفتے اعلان کیا کہ وہ صدارتی انتخاب کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے رہے ہیں۔ روایتی طور پر وائٹ ہاؤس کے امیدواروں کی انتخابی مہم کی جانب یہ پہلا قدم ہوتا ہے۔
2008ء میں ریپبلیکن پارٹی نے جان مکین کو اپنا امید وار نامزد کیا تھا۔ رومنی کا نمبر دوسرا تھا اگرچہ انھوں نے انتخابی مہم کے لیے مکین سے زیادہ پیسہ جمع کر لیا تھا۔ اب رومنی نے ایک وڈیو میں جو ان کی انتخابی مہم کی تنظیم نے جاری کیا ہے، 2012ء کے لیے اپنے ابتدائی قدم کا اعلان کیا ہے۔
اس وڈیو میں انھوں نے کہا ’’میں امریکہ میں یقین رکھتا ہوں۔ میں آزادی اور ترقی کے مواقع میں، اور ہمارے آئین کے ان اصولوں میں یقین رکھتا ہوں جن کی بدولت ہم کرہ ارض کی تاریخ میں عظیم ترین ملک بن گئے ہیں۔ یہ کوشش کسی ایک فرد کے لیے نہیں ہے۔ یہ امریکہ کی آزادی اور اس کی عظمت کی سربلندی کے لیے ہے۔‘‘
ملک میں رومنی کے مقابلے میں رِک سینٹورَم کو کم لوگ جانتے ہیں۔ لیکن سماجی مسائل میں وہ اپنے مضبوط قدامت پسند خیالات کے لیے مشہور ہیں۔ مثلاً وہ اسقاط حمل اور ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کے مخالف ہیں۔
جائزہ کمیٹیاں قائم کرنے کے بعد، امکانی امیدوار فنڈ جمع کرنا اور یہ اندازہ لگانا شروع کر دیتےہیں کہ صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے جو کروڑوں ڈالر درکار ہوں گے، انہیں اکٹھا کرنا کتنا مشکل یا آسان ہو گا۔
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں میں اب تک رومنی تقریباً سب سے اوپر رہے ہیں اور بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں مقابلے کے اس ابتدائی مرحلے میں صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن پارٹی کی نامزدگی میں رومنی پہلے نمبر پر ہیں۔
یونیورسٹی آف ورجینیا کے لیری سباتو کہتے ہیں’’ریپبلیکن روایت کے مطابق مِٹ رومنی اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں کیوں کہ وہ پہلے اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں اور ان کی نامزدگی میں تھوڑی سی کسر باقی رہ گئی تھی۔ لیکن وہ کوئی مضبوط امید وار نہیں ہیں۔ انھوں نے 2008ء میں کوئی بہت اچھا تاثر نہیں چھوڑا تھا، اور ابھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس دوڑ میں اور کتنے لوگ شامل ہوں گے۔‘‘
بعض دوسرےتجزیہ کار کہتے ہیں کہ 2012ء کے لیے ابھی میدان کھلا ہے اور ان کی پیشگوئی ہے کہ بالآخر امیدواروں کی بہت بڑی تعداد اس دوڑ میں شامل ہو جائے گی۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ ریاست منی سوٹا کے سابق گورنر ٹِم پالینٹے اور ریاست لوزیانا کے سابق گورنر بَڈی روؤمر نے پہلے ہی وائٹ ہاؤس کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کچھ ابتدائی قدم اٹھا لیے ہیں۔ توقع ہے کہ جلد ہی منی سوٹا کی نمائندہ میشیل بیکمان اور مسی سی کے گورنر ہالی باربور کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔
لیکن کچھ مشہور ریپبلیکنز نے اب تک اس دوڑ میں شامل ہونے کا عندیہ ظاہر نہیں کیا ہے۔ ان میں آرکنساس کے سابق گورنر مائیک ہُکابی اور الاسکا کی سابق گورنر سارا پیلن شامل ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران ایک حیران کن اضافہ نیو یارک کے جائیدادوں کا کاروبار کرنے والے اور ٹیلیویژن کی مشہور شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کا ہوا ہے۔ انھوں نے صدر براک اوباما کی پیدائش کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں اگرچہ ریاست ہوائی کے عہدے داروں نے اس سرٹیفکیٹ کے اصلی ہونے کی تصدیق اس وقت کر دی تھی جب وہ صدارتی امید وار تھے۔
امریکی آئین کے مطابق، صرف وہ لوگ امریکہ کے صدر بننے کے اہل ہیں جو امریکہ میں پیدا ہوئے ہوں۔ مسٹر اوباما کے مخالف بعض گروپس جنہیں برتھر birther گروپس کہتےہیں، مسلسل یہ الزام لگاتے رہتے ہیں کہ وہ کینیا میں پیدا ہوئے تھے۔
ہُکابی، ٹرمپ، رومنی اور گنگرچ جیسے نام رائے عامہ کے جائزوں میں سب سے اوپر ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جو نام زیادہ مشہور ہیں، وہ 2012ء کی ریپبلیکن ریس کے ابتدائی مرحلوں میں فائدے میں رہیں گے۔
توقع ہے کہ ایسے بیشتر ریپبلیکنز جو اگلے سال واقعی صدارتی انتخاب میں حصہ لینا چاہتے ہیں، اگلے چند مہینوں میں اپنے ارادوں کا باقاعدہ اعلان کر دیں گے۔ امیدواروں کے درمیان مباحثے اگلے مہینے ریاست ساؤتھ کیرولائنا میں شروع ہوں گے۔ ریپبلیکنز کا پہلا سرکاری ٹیسٹ اگلی فروری میں ریاست Iowa کے حلقۂ انتخاب میں پارٹی کے کارکنوں کے اجتماعات میں ہو گا جنھیں کوکس (caucuses) کہتے ہیں۔