رسائی کے لنکس

’سرٹیفیکیٹ جاری ہوگیا اب اصل مسائل پر توجہ دینی چاہیے‘


’سرٹیفیکیٹ جاری ہوگیا اب اصل مسائل پر توجہ دینی چاہیے‘
’سرٹیفیکیٹ جاری ہوگیا اب اصل مسائل پر توجہ دینی چاہیے‘

بدھ کے روز صدر اوباما نے ریاست ہوائی میں اپنی پیدائش کا اصل سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا تا کہ جن لوگوں کو ان کے امریکہ میں پیدا ہونے کے بارے میں شبہ ہے انہیں اطمینان ہو جائے اور ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے اب تک جاری رہنے والا یہ تنازع ، آخرِ کار طے ہو جائے ۔

صدر براک اوباما نے وائٹ ہاؤس کے بریفنگ روم میں اپنی پیدائش کا اصلی سرٹیفیکیٹ جاری کیا جس کے مطابق وہ ہوائی میں 4 اگست، 1961 کو پیدا ہوئے تھے ۔ امریکی آئین کے مطابق ضروری ہے کہ صدر امریکی شہری ہوں اور امریکہ کے اندر پیدا ہوئے ہوں۔ دو برس سے زیادہ عرصے سے ایک چھوٹے سے گروپ نے اس بارے میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس گروپ کا دعویٰ ہے کہ صدر کینیا میں پیدا ہوئے تھے جو ان کے والد کا آبائی وطن تھا ۔ مسٹر اوباما نے اس امید کا اظہار کیا کہ پیدائش کے اس سرٹیفیکیٹ سے ان کے مقام ِ پیدائش کے بارے میں جو سوالات اٹھائے جا رہے تھے ان کا خاتمہ ہو جائے گا اور ہمیں زیادہ اہم قومی مسائل جیسے معیشت اور بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کے پر توجہ دینے کا موقع ملے گا۔

’’ہم یہ کام نہیں کر سکیں گے اگر ہم خود نئی چیزیں تخلیق کرتے رہیں اور یہ فرض کر لیں کہ حقائق حقائق نہیں ہیں ۔ ہم اپنے مسائل کبھی حل نہیں کر سکیں گے اگر ہماری توجہ فروعی باتوں اور میلوں ٹھیلوں میں آواز لگانے والوں کی چکنی چپڑی باتوں کی طرف ہو جاتی ہے ۔‘‘

صدر نے کسی کا نام تو نہیں لیا لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آواز لگانے والوں سے ان کا اشارہ نیو یارک میں جائیدادوں کا کاروبار کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف تھا جو اگلے سال ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی انتخاب میں نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالیہ ہفتوں کے دوران انھوں نے اوباما کی پیدائش کے معاملے کو ، جسے برتھر ایشو کا نام دیا گیا ہے، خوب اچھالا ہے ۔ اس طرح ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں میں صدارت کے لیے ریپبلیکن امیدواروں میں وہ مقبول ترین امیدواروں میں شامل ہو گئے ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے جب صدر کی پیدائش کا سرٹیفیکٹ جاری کیا، اس وقت ٹرمپ نیو ہیمپشائر میں تھے اور جب وہ رپورٹروں سے ملے تو انھوں نے اس خبر پر اس طرح تبصرہ کیا گویا اس معاملے میں جیت ان کی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا’’آج مجھے اپنے آپ پر بڑا فخر ہے کیوں کہ آج میں نے وہ چیز حاصل کر لی ہے جو کوئی اور حاصل نہیں کر سکا ہے ۔ میں اس سرٹیفیکیٹ کو دیکھنا چاہوں گا ۔ مجھے امید ہے کہ یہ اصلی ہے ، اور اب ہم کہیں زیادہ اہم معاملات پر توجہ دے سکتے ہیں۔‘‘

نیو ہیمپشائر کے علاوہ، ٹرمپ نواڈا اور آیووا سمیت دوسری ریاستوں کا دورہ بھی کرنے والے ہیں جہاں صدارتی امیدواروں میں مقابلے نسبتاًجلدی ہوتے ہیں۔

بعض ریپبلیکنز نے پیدائش کے سرٹیفیکیٹ کے معاملے کو اتنی اہمیت دینے پر ٹرمپ پر تنقید کی ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے سرٹیفیکیٹ کے اجرا سے ٹرمپ کے انتخاب میں حصہ لینے یا نہ لینے کے فیصلے پر کیا اثر پڑے گا۔ انھو ں نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں جون میں فیصلہ کریں گے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ریپبلیکن ووٹرز کو کسی حد تک ٹرمپ میں دلچسپی تھی کیوں کہ اب تک کوئی فیصلہ کن امید وار سامنے نہیں آیا ہے اور ریپبلیکن صدارتی امیدواروں کی حتمی فہرست کی تشکیل ہونے کی رفتار بہت سست ہے ۔

سیاسی تجزیہ کار روڈز کُک کہتے ہیں کہ پچھلے انتخابوں کے بر عکس، اس سال ریپبلیکن مقابلے میں کوئی ایسا امید وار نہیں ہے جو مقابلے میں سب سے آگے ہو اور جسے پارٹی کی طرف سے نامزدگی ملنے کا واضح امکان موجود ہو ۔

سابق ریپبلیکن کانگریس مین، ریاست اوکلاہوما کے مکی ایڈورڈز کہتےہیں کہ ریپبلیکنز کو ایسے امیدواروں کی بھی تلاش ہے جو ٹی پارٹی کے قدامت پسند کارکنوں کے لیئے بھی پُر کشش ہوں جن کی وجہ سے گذشتہ برس کے انتخاب میں ریپبلیکنز کو فتح حاصل ہوئی تھی۔’’کوئی بھی ابھر کر سامنے نہیں آ رہا ہے ۔ کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا کہ پرائمری انتخابات پر ٹی پارٹی کا کیا اثر ہو گا، اور خود کو موثر بنانے کے لیئے آپ کو کیا موقف اختیار کرنا چاہیئے۔ میرے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیئے۔‘‘

بدھ کے روز ٹرمپ کو اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک اسٹوری کے ذریعے ایک اور ایسی خبر ملی جو ان کے حق میں نہیں جاتی ۔ اخبار نے اطلاع دی کہ انھو ں نے گذشتہ برسوں میں ریپبلیکنز کے مقابلے میں ڈیموکریٹک امیدواروں کو زیادہ پیسہ دیا ہے ۔ یہ ایسی چیز ہے جو اگلے سال کے پرائمری اور کاکس کے مقابلوںمیں ریپبلیکن ووٹرز کو پسند نہیں آئے گی۔

XS
SM
MD
LG