پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کےمواقع، پاکستانی تاجروں کی امریکہ آمد

واشنگٹن

اخباری سرخیوں سے قطعِ نظر، 700سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اِس وقت پاکستان میں موجود ہیں اورسرمایہ کاری کا منظربھی کہیں زیادہ پُر کشش ہے: سلیم مانڈوی والا

‘پاکستان بزنس ایمبیسیڈرز پروگرام’ کے تحت پاکستان میں امریکی سفیراین ڈبلیو پیٹرسن اوروزیرِمملکت برائےسرمایہ کاری سلیم ایچ مانڈوی والا پاکستانی کاروباری رہنماؤں کا تیسرا وفدنیویارک پہنچ رہا ہے۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانےاورپاکستان سرمایہ کاری بورڈ کی جانب سےاپریل 2009ء میں شروع کیےگئے اِس پروگرام کےتحت پاکستان کےکامیاب ترین کاروباری رہنماؤں کوامریکہ اور پاکستان کےمابین تجارت اورسرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیےجاتے ہیں۔

امریکی حکومت کے ایک اخباری بیان کےمطابق، امریکی سفیر نے کہا ہےکہ اقتصادی ترقی اورسیاسی استحکام ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اورامریکہ نےنجی شعبے کی ترقی اور روزگار کےمواقع پیدا کرنےکےلیےسرمایہ کاری بورڈ کےاقدامات کی اعانت کرنےکا تہیہ کررکھا ہے۔

اُن کے بقول، ‘امریکہ کے لیےخاص طور پر پاکستان ایک وسیع منڈی کا درجہ رکھتا ہےجِس میں خاصہ بڑا کاروباری طبقہ موجود ہے، اور ہم اِن تاجر رہنماؤں کےغیرمعمولی وسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نیویارک سٹی اوربوسٹن کےدورے کے دوران، مندوبین پاکستان اور اِس کی معیشت کے بارے میں افہام و تفہیم کےفروغ کے لیےامریکی کاروباری رہنماؤں اورمیڈیا سےملاقاتیں کریں گے۔

وفد میں مدعکد شعبوں بشمول توانائی، بجلی، پرائیویٹ ایکوئٹی، بینکاری، ایئر لائنز، بنیادی ڈھانچےاور اشیائےصرف و خدمات کے نمائندے شامل ہیں۔ وفد کے ارکان میں شاہد خاقان عباسی، چیرمین اور سی اِی او ‘ایئر بِلو’؛ غوث اکبر، ڈائریکٹر اکبرگروپ؛ ندیم بابر، سی اِی او ‘اورئینٹ پاور کمپنی لمیٹڈ’؛ رزاق داؤد، چیرمین ‘ڈیکسن انجنئیرنگ’؛ سیما کامل، ہیڈ کارپوریٹ اینڈ انویسٹ منٹ بینکنگ، حبیب بینک لمڈٹک’، اور علی جہانگیر صدیقی، منیجنگ پارٹنر، جے ایس پرائیویٹ ایکوئٹی فنڈ شامل ہیں۔

وزیرِ مملکت سلیم مانڈوی والا نےکہا ہےکہ پاکستان کی معیشت کو 18کروڑ افرادچلا رہے ہیں جِن کی مسلسل طلب سے پاکستان کی معیشت کو ایندھن میسر آرہا ہے اور جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران شرحِ نمو کا اندازہ 4.1فی صد لگایا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ 700سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اِس وقت پاکستان میں موجود ہیں اورسرمایہ کاری کا منظربھی کہیں زیادہ پُر کشش ہے، جب سرمایہ کار اخباری سرخیوں سے قطعِ نظر بنیادی امکانات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔