پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھرکا کہنا ہےکہ اُن کے ملک نے امریکہ کےساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
جمعرات کو برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کےساتھ گفتگو میں وزیرِ خارجہ نےکہا کہ پاکستان اس وقت تک امریکہ کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار نہیں کرسکتا جب تک اس کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہ نظرِثانی کا عمل مکمل نہیں کرلیا جاتا۔
پاکستانی وزیر کا یہ بیان ان خبروں کی اشاعت کے بعد سامنےآیا ہےجن کےمطابق پاکستانی حکام نے امریکہ کے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین کو اس وقت تک اسلام آباد آنے سے گریز کرنے کا کہا تھا جب تک پاک-امریکہ تعلقات کا جائزہ لینے والی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نظر ثانی کا کام مکمل نہیں کرلیتی۔
واضح رہے کہ گراسمین رواں ہفتے اپنے وفد کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کریں گے جس کے دوران وہ امریکہ اور طالبان قیادت کےمابین ابتدائی امن مذاکرات کے معاملے پر افغان صدر حامد کرزئی کو اعتماد میں لیں گے۔
'رائٹرز' کو دیے گئے انٹرویو کے دوران میں حناربانی کھر کا کہنا تھا کہ نظرثانی کا عمل مکمل ہونے تک امریکہ کو افغان امن عمل میں شریک ہونے یا دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے لیے پاکستان پہ دبائوڈالنے سے گریز کرنا چاہیئے۔
حنا ربانی کھر نے امریکہ کو برداشت کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کا دبائو افغانستان میں جاری قیامِ امن کی کوششوں کو متاثر کرے گا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ پارلیمانی کمیٹی امریکہ کےساتھ مستقبل میں پاکستان کےتعلقات کی نوعیت کے بارے میں اپنی سفارشات آئندہ چند روز میں پیش کردے گی۔
قبل ازیں، پاکستان نے کہا تھا کہ افغانستان میں تعینات غیرملکی افواج کے لیے رسد کی راہداری بحال کرنے کا ’’فی الحال‘‘ کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
وزارت خارجہ میں جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان عبدالباسط نے رسد کی بحالی کو امریکہ اور نیٹو کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہ نظرِ ثانی کے جاری عمل کے نتائج سے مشروط کیا تھا۔