امریکہ نے تہران حکومت سے ایران میں آٹھ سال قبل لاپتا ہونے والے امریکی شہری کا پتا لگانے میں مدد دینے کی ایک بار پھر اپیل کی ہے۔
امریکی حکومت نے رابرٹ لیونسن کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر انعام کی رقم بھی 10 لاکھ ڈالر سے بڑھا کر 50 لاکھ ڈالر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو رابرٹ لیونسن کی گمشدگی کے آٹھ سال مکمل ہونے پر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ان کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے ایران کا تعاون چاہتے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے اپنے بیان میں "اسلامی جمہوریہ ایران" کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ رابرٹ لیونسن کی گمشدگی کی تحقیقات میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرے تاکہ ان کی وطن واپسی یقینی بنائی جاسکے۔
جان کیری نے اپنے بیان میں لیونسن کی صحت سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اہلِ خانہ ان کی گمشدگی کے باعث سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔
لیونسن امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے سابق ملازم تھے جو نو مارچ 2007ء کو ایران کے جزیرے کِش میں لاپتا ہوگئے تھے۔
لیونسن 'ایف بی آئی' کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ایک نجی سراغ رساں کے طور پر کام کر رہے تھے اور ان کے ایران کے دورے کا مقصد بھی اسی سے متعلق تھا۔
لیونسن کے احباب کے مطابق لیونسن اپنی گمشدگی سے قبل لاطینی امریکہ میں جعلی سگریٹوں کی تیاری کے ایک کیس کی تحقیقات کر رہے تھے۔
لیونسن کی گمشدگی کے بعد سے 'ایف بی آئی' ان کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے اور 2012ء میں ایجنسی نے ان کے بارے میں معلومات دینے والے شخص کو 10 لاکھ ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔
پیر کو 'ایف بی آئی' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں یہ انعامی رقم بڑھا کر 50 لاکھ ڈالر کردی گئی ہے۔
نومبر 2010ء میں انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں لیونسن نے امریکی حکومت سے اپنی رہائی میں مدد دینے کی درخواست کی تھی۔ لیکن انہوں نے اس ویڈیو میں ایسی کوئی بات نہیں بتائی تھی جس سے یہ پتا چل سکے کہ انہیں کس نے اور کہاں یرغمال رکھا ہوا ہے۔
ایرانی حکومت ماضی میں کئی بار رابرٹ لیونسن کی گمشدگی کے بارے میں علم ہونے اور ان کے ایران میں زیرِ حراست ہونے کی قیاس آرائیوں کی تردید کرچکی ہے۔