دودھ انسان کی اہم ضرورت ہے اور قدرت نے یہ نعمت وافر فراہم کی ہے۔ مگر یہ نعمت بھی امریکہ میں کرونا وائرس کی زد میں ہے۔
امریکہ کی مجموعی پیداوار کا ایک فیصد اسی صنعت سے آتا ہے۔ سالانہ 628 ارب ڈالر کی اس صنعت میں 30 لاکھ لوگ کام کرتے ہیں اور 159 ارب ڈالر کی اجرت پاتے ہیں۔ امریکہ میں ڈیری کی صنعت دنیا کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ 2019 کے ایک جائزے کے مطابق، گائے کے دودھ کی پیداوار میں یورپی یونین پہلے، امریکہ دوسرے اور بھارت تیسرے نمبر پر ہے۔
ڈاکٹر ظفر بخاری شکاگو سٹیٹ یونیورسٹی میں مارکیٹنگ اینڈ انٹرنیشنل بزنس کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "جب ہم دودھ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں تین اہم شعبے نظر آتے ہیں۔ ایک پیداوار، دوسرے سپلائی اور تیسرے وہ کارکن جو اس پورے عمل میں شامل ہوتے ہیں۔"
2018 کے ایک اندازے کے مطابق، ایک امریکی اوسطاً سالانہ 146 پاؤنڈ دودھ پی جاتا ہے۔ لیکن، ساتھ ہی امریکہ میں وزن بڑھنے سے روکنے کے خواہشمندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور لوگ دودھ کے بجائے پانی کی بوتلوں کو ترجیح دینے لگے۔ چنانچہ، دودھ کی فروخت کم ہوئی اور اس صنعت سے وابستہ لوگوں میں فکر مندی بڑھنے لگی۔
کرونا وائرس کی وبا کے دوران بھی بنیادی خوراک اور دودھ کی مانگ تو کم نہیں ہوئی مگر اس کے باوجود امریکہ میں اس صنعت کیلئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
ڈیری فارمرز آف امریکہ یا ڈی ایف اے امریکہ میں ڈیری کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس نے شکاگو میں ڈیری فارم کے مالک جیسن لیڈل کو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں دودھ نہیں چاہئے۔ بھلے اسے زمین پر بہا دو۔
کرونا وائرس کی وبا کے باعث امریکہ میں سکول اور ریستوران بند ہوئے تو توجہ ہول سیل سے ریٹیل گروسری سٹورز کی جانب ہو گئی اور اب دودھ مکھن اور پنیر بنانے والے پلانٹس کیلئے اپنے مال کی پیکنگ اور ٹرانسپورٹ کا شدید مسئلہ پیدا ہو گیا۔ ورک فورس کم ہو گئی اور مال پہنچانے کیلئے ٹرک ڈرائیور تلاش کرنا مشکل ہو گیا۔ اور سب سے بڑا مسئلہ ان اشیا کو محفوظ رکھنے کا ہے، کیونکہ دودھ کو گوشت کی طرح فریز نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی اناج کی طرح گوداموں میں رکھا جا سکتا ہے۔
سفر کی پابندیوں کی وجہ سے پلانٹ پر ورک فورس کی کمی دنیا بھر میں محسوس کی جا رہی ہے اور خوراک کے شعبے میں فصل بونے، کاٹنے اور پھر سبزیاں اور پھل مارکیٹ تک پہنچانے کیلئے ضروری کارکن انتہائی کم ہو گئے ہیں اور ریفریجریٹڈ ٹرک اور ٹرک ڈرائیور دستیاب نہ ہونے کے باعث گوشت اور اناج کی ترسیل بہت سست ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر ظفر بخاری نے بتایا کہ "سپلائی چین اب بھی چل رہی ہے اور ٹرکوں کو بھی نہیں روکا گیا۔ مسئلہ صرف کارکنوں کا ہے جسے ہیومین ریسورس بھی کہتے ہیں۔ جس فرم میں دس یا اس سے زیادہ لوگ کام کرتے تھے اس پر پابندی ہے اور کچھ لوگوں نے خود کو گھروں میں بند کر لیا ہے، کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ انہیں گھروں پر پے منٹ ہو جائے گی۔"
لوگوں کو ان اشیا کی ضرورت اب بھی ہے۔ مگر یہ سب مارکیٹ تک پہنچانے سے پہلے پلانٹس میں تیار کرنا مشکل ہے مثلاً دودھ سے تیار کردہ دہی، مکھن اور پنیر کی مانگ کم نہیں ہوئی، مگر اسے تیار کرنے والی بڑی امریکی کمپنیاں اپنے دودھ مہیّا کرنے والے ڈیری فارم مالکان کو ہدایت کر رہی ہیں کہ وہ دودھ بہا دیں، کیونکہ اس کی کھپت نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ دودھ پلانٹ تک پہنچانا اور اسے پراسس کرنا ان کیلئے مشکل ہو رہا ہے۔
لیڈل جیسے ڈیری فارم کے مالکان خود دودھ مارکیٹ تک پہنچا سکیں تو کوئی مسئلہ نہ ہو، کیونکہ لوگوں کو دودھ کی ضرورت اب بھی ہے۔ مگر امریکہ میں پیکیجنگ بھی ایک خاص طریقے سے ہوتی ہے۔ اور ہول سیل کیلئے مال مہیّا کرنے والوں کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک نیا پلانٹ لگا کر چھوٹے پیکٹ تیار کریں جو عام مارکیٹ میں براہِ راست خریداروں تک پہنچیں۔
منگل کے دن سے اب تک لیڈل اپنے ڈیری فارم میں اپنی 480 گائے بھینسوں کا 4700 گیلن دودھ روزانہ بس زمین پر بہا رہے ہیں۔ ایف ڈی اے سے منسلک ہونے کے باعث انہیں تو ان کے دودھ کی قیمت مل جائے گی مگر اس دودھ سے ہونے والی آمدنی پر انحصار کرنے والے کارکنوں کی اجرتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ تاہم، شکاگو سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری امید کرتے ہیں کہ آئندہ دو ماہ تک حالات واضح ہو جائیں گے۔