لی سمتھ کہتے ہیں کہ امریکیوں کے لیے یہ بات سمجھنی ہمیشہ مشکل رہی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنا اتنا مشکل کیوں ہے اور عرب دنیا میں تشدد اور دہشت گردی اتنی زیادہ عام کیوں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان سوالات کا جواب دینا سنُی عرب دہشت گردوں کے نائن الیون کے حملے میں تین ہزار امریکیوں کی ہلاکت اور افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کی مداخلت کے بعد اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔
سمتھ کہتے ہیں کہ امریکی دانشور اور صحافی مشرق وسطیٰ میں بد امنی کی جو بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں ان میں نو آبادیاتی نظام اور اقتصادی استحصال کی تاریخ، اسرائیل کی تخلیق اور اس یہودی مملکت کے لیے امریکہ کی حمایت، تیل کی سیاست، آمرانہ عرب حکومتوں کے لیے مغربی دنیا کی حمایت اور مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجوں کی موجودگی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
سمتھ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ عربوں کی نظر میں مغرب کے حوالے سے یہ سب عوامل اہم ہیں۔ لیکن اپنی نئی کتاب، The Strong Horse: Power, Politics and the Clash of Arab Civilization میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری عرب تشدد اور قیامِ امن کی اتنی بہت سی کوششوں کے ناکام ہونے کی اصل وجہ خود عربوں کا کلچر ہے ۔
سمتھ کی دلیل یہ ہے کہ یہ ایسا سیاسی کلچر ہے جس میں تشدد نے ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا ہے۔وہ کہتے ہیں’’ظاہر ہے کہ عراق میں مسجدوں کو اڑانے والے امریکی نہیں تھے۔ بیروت میں دہشت گردی کی مہم جس میں لبنانی سیاست دانوں، صحافیوں اور معاشرے کے اہم افراد کو قتل کیا گیا، بُش انتظامیہ نے شروع نہیں کی تھی اور شام، مصر، سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے علاقوں میں حزب اختلاف کی شخصیتوں، دانشوروں، صحافیوں یا بلاگرز کو جیل میں ڈالنے، انہیں اذیتیں دینے اور قتل کرنے کا کام امریکی محکمہء خارجہ نے انجام نہیں دیا۔ یہ عرب ہی تھے جنھوں نے دوسرے عربوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔‘‘
سمتھ کہتے ہیں کہ امریکی پالیسی سازوں کو جو سبق سیکھنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ عربوں میں آپس میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے ۔ اصل ٹکراؤ عرب تہذیبوں کے درمیان ہے اور عرب حکومتوں اور ان کے اپنے عوام کے درمیان ہے ۔شاید اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک طرف جمہوری اور ترقی پسند رجحانات ہیں اور دوسری طرف تشدد اور خونریزی سے بھر پور تصورات ہیں جن کی نمائندگی علاقے کی بعض اہم شخصیتیں کرتی ہیں۔
سمتھ جو روانی سے عربی بول سکتے ہیں،نائن الیون کے بعد قاہرہ منتقل ہو گئے تھے۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ القاعدہ کے حملہ آوروں کا اصل محرک کیا تھا۔ وہ ا س سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے گذشتہ نو برسوں سے مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں سفر کرتے رہے ہیں۔
سمتھ کا خیال ہے کہ سینکڑوں برس تک سلطنت عثمانیہ کے زیرِ نگیں اور مغربی ملکوں کی نو آبادی بنے رہنے اور کئی عشروں کے جنگ و جدال کے بعد اب عرب اپنے معاشروں کو مستحکم اور مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کسی ایسے مضبوط حلیف کی تلاش میں ہیں جو انھیں ان کے پُر آشوب ماضی سے نکال دے ۔ یمن جیسے عرب ملکوں کو نوجوان انتہا پسند مسلمان باغیو ں سے خطرہ ہے۔ ان ملکوں کو بھی قانون کی حکمرانی قائم رکھنے اور سیاسی اصلاحات کے لیے جمہوری راہ اختیار کرنے میں مدد کی ضرورت ہے ۔
سمتھ کہتے ہیں کہ امریکہ یہ رول ادا کر سکتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہیئے ۔ ’’ایسے کوئی شواہد نظر نہیں آتے کہ امریکہ پہلے کے مقابلے میں کم طاقتور ہے ۔ میرے خیال میں یہ بات واضح ہے کہ اگر ہم اس علاقے میں اپنا رول کم کرنا چاہیں تو بھی یمن جیسے مسائل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ امریکہ یقیناً مدد فراہم کر سکتا ہے ۔‘‘
مصنف یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں نو برس تک فوجی مہموں میں الجھے رہنے کے بعد، امریکہ کے لوگوں میں تھکن کااحساس پیدا ہو چلا ہے۔ موجودہ مالی بحران نے امریکیوں کو جس طرح متاثر کیا ہے اس کی روشنی میں علاقے سےخود کو نکال لینے کا خیال پر کشش ہو گیا ہے ۔
لیکن لی سمتھ کا خیال ہے کہ اس مرحلے پر مشرق ِ وسطیٰ میں امریکہ کی موجودگی میں کمی کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور عدم استحکام کی ایسی کیفیت پیدا کر سکتا ہے جس سے حالات اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔یہ بات خلیج کی عرب ریاستوں کے لیے اور بھی اہم ہے جہاں کئی عشروں سے امریکہ نے اپنی موجودگی سے دنیا کے تیل کے سب سے بڑے ذخائر کی سلامتی کو یقینی بنائے رکھا ہے ۔